برصغیر میں کھانا پکانے کا حیران کن برتن

دیگ—– برصغیر میں کھانا پکانے کا خاص برتن:
دیگ برصغیر میں کھانا پکانے کا حیران کن برتن ہے۔ اس قسم کے مفید اور منفرد برتن کی کم ہی مثالیں موجود ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا برتن ہوتا ہے جو زیادہ مقدار میں کھانا بنانے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔ زیادہ تر دیگیں شادیوں کے موقع پر استعمال ہوتی ہیں یا دیگر بڑی تقریبات میں جہاں کھانا زیادہ مقدار میں درکار ہوتا ہے۔ جو کھانا دیگ میں پکایا جائے اسے دیگی کھانا کہتے ہیں۔

دیگیں 10,5یا 12 کلوگرام کے مختلف سائز میں ہوتی ہیں۔ بڑے سائز میں ہونے کی وجہ سے یہ بات حیران کن نہیں کہ ایک دیگ سے پچاس سے زیادہ لوگ کھانا کھا سکتے ہیں دیگیں غالباً پہلی بارمقامی فوجوں نے اپنے بڑے لشکروں کو کھانا فراہم کرنے کیلئے استعمال کیں۔ دیگوں کی ساخت اس قسم کی ہوتی ہے کہ دو دیگیں بیک وقت اکٹھی اٹھائی جاسکتی ہیں۔ دیگ کی موٹائی اور اس کا گول پیندہ کھانوں کو گرم رکھنے میں مدد دیتاہے۔ اس کے کنارے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے اسے صاف کرنا آسان ہوتاہے۔ دیگ کی ساخت بڑی ہونے کی وجہ سے اسے پانی ابالنے، چاول بنانے، کھانا بھاپ میں پکانے یہاں تک کہ زیادہ مقدار میں چائے بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

تندور…… برصغیر میں کھانا پکانے کا ایک اہم آلہ:
تندور مٹی سے بنی گول نما بھٹی ہوتی ہے جوکہ بنیادی طور پر روٹی اور نان بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اپنے بڑے سائز اور شدید گرم ہونے کی بنا پر یہ زیادہ مقدار میں پکائی کے لئے بہت مفید ہے۔ روایتی تندور کو لکڑیوں سے جلایاجاتا ہے تاہم جب سے گیس مختلف شکلوں میں آج کل عام دستیاب ہے زیادہ تر تندور گیس پرمنتقل ہوچکے ہیں۔ مورخین کے مطابق تندور کا پہلی بار استعمال قبل از مسیح ہو جوکہ قدیم وادی ئ سندھ اور ہڑپہ تہذیب میں کیاگیا۔ یہ علاقے صوبہ سندھ اور پنجاب میں واقع ہیں۔

دوسرے ملکوں میں تندور کا استعمال چکن باربی کیو اور گوشت کے دیگر پکوان بنانے میں کیا جاتا ہے۔ تندور کا استعمال کب شروع ہوا اس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ مغل بادشاہوں کے سر بھی اس کا سہرا جاتا ہے خصوصاً جہانگیر بادشاہ کو لیکن اس بارے میں بھی حتمی طور پر کوئی شواہد موجود نہیں۔

1920 میں موتی محل پشاور کے ایک ریسٹورنٹ میں تندوری چکن تکہ بنانے کا آغاز ہوا جس کا سہرا کند لعل گجرال کو جاتا ہے۔ بعد ازاں 1947 میں دہلی منتقل ہوگئے اور وہاں دریا گنج میں اسی نام سے ایک ریسٹورنٹ کھولا۔مختلف بزرگ لوگوں سے معلوم کرنے سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ ایسی کسی ڈش سے لاعلم ہیں اور نہ ہی انہوں نے اپنے کسی بزرگ سے تندوری چکن تکہ کے بارے میں کچھ سنا۔ ابھی تک پشاور اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں ایسی کسی تندوری ڈش کا وجود نہیں۔ پاکستان میں سوائے چند پرتعیش مغربی ہوٹلوں کے چکن تندوری زیادہ مقبول نہیں ہم ابھی تک چار کول گرل پر چکن تکہ بنانا ہی پسندکرتے ہیں۔

Comments are closed.