انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نے پاکستان میں بارشوں کے بعد ہونے والے نقصانات کے حوالہ سے اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 25 جون سے شروع ہونے والے بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں پاکستان میں اب تک 183 افراد کی موت ہو ئی ہے اور 266 افراد زخمی ہوئے ہیں،
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نے نقصانات کی رپورٹ دو اگست کو جاری کی ہے جس میں کہا ہے کہ پاکستان میں شدید بارش اور سیلاب کا خطرہ ہے، پاکستان میں مون سون کی بارشیں دوبارہ شروع ہو چکی ہیں ، وہ علاقے جو گزشتہ برس سیلاب سے متاثر ہوئے تھے، پھر متاثر ہو سکتے ہیں، گزشتہ برس سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر اور 1739 کی موت ہو ئی تھی، اب موجودہ بارشوں کے بعد این ڈی ایم اے نے جو رپورٹ جاری کی اسکے مطابق اب تک رواں برس بارشوں کے بعد کی صورتحال کے نتیجے میں 183 افراد کی موت ہو چکی ہے، بلوچستان اور کے پی کے متعدد اضلاع شدید بارش کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں،
بلوچستان میں خاران، آواران، ژوب، قلعہ سیف اللہ، نصیر آباد، لسبیلہ، اوستہ محمد اور صحبت پورمیں شدید بارش ہوئی،صوبہ بلوچستان میں اب تک 12 افراد جاں بحق، 14 زخمی، 334 مکانات تباہ ہوئے، جن کو جزوی طور پر نقصان پہنچا، اور 332 مکانات مکمل طور پر تباہ ہونے کی اطلاع ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں بلوچستان کا ضلع واشک بری طرح متاثر ہوا اور 200 مکانات ضلع میں مکمل طور پر تباہ ہونے کی اطلاع ہے۔
کے پی کے میں خیبر، سوات، بٹگرام، مانسہرہ، کرک، مردان، شانگلہ، اپر کوہستان، اپر دیر، لوئر دیر، بونیر، مالاکنڈ،باجوڑ، ایبٹ آباد، اپر چترال، اور لوئر چترال متاثرہ علاقوں میں شامل ہیں، این ڈی ایم اے کے مطابق 17 سے 30 جولائی کے درمیان شدید بارشیں ہوئی، اس دوران سیلاب آیا اور 53 افراد کی موت ہوئی جبکہ 67 افراد زخمی ہوئے، خیبرپختونخوا میں بھی سیلاب کے باعث 219 مویشی لقمہ اجل بن گئے۔ شدید بارشوں نے دو اسکولوں اور 379 مکانات کو نقصان پہنچایا، جن میں 74 مکمل طور پر تباہ ہو ئے جبکہ 305 کو جزوی نقصان پہنچا۔
صوبہ سندھ میں، ضلع دادو کی چھ یونین کونسلیں سیلابی پانی سے متاثر ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 183 دیہات اور 102,268 افراد متاثر ہوئے کیونکہ اہم سڑکیں زیر آب ہیں۔ لوگ آمدورفت کے لیے متبادل راستے استعمال کر رہے ہیں۔سندھ میں 10 اموات اور 21 افراد زخمی ہوئے۔ حال ہی میں سیلابی پانی نے سکھر اور جیکب آباد کی آبادی کو متاثر کیا ہے۔ضلع میں 324 مکانات کو جزوی اور 18 کو مکمل طور پر نقصان پہنچا ہے۔3,528 ایکڑ فصل کا رقبہ تباہ ہوا ہے ،
دوسری جانب ایک اور رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں مون سون بارشوں سے ہلاکتوں کی تعداد 16 ہو گئی ہے، رپورٹ کے مطابق لورالائی میں3 ،پنجگور ، ژوب اور نصیر آباد میں 2 ،2 افراد ہلاک ہوئے جبکہ آواران، قلعہ سیف اللہ، خضدار، ڈیرہ بگٹی، پشین،کیچ اور جھل مگسی میں بارشوں کے باعث ایک ایک ہلاکت ہوئی جاں بحق ہونے والوں میں 8 مرد، 2 خواتین اور 6 بچے شامل ہیں جب کہ بارشوں سے صوبے میں 24 افراد زخمی بھی ہوئے
عمران خان سے اختلاف رکھنے والوں کی موت؟
حضوراقدس پر کوڑا بھینکنے والی خاتون کا گھر مل گیا ،وادی طائف سے لائیو مناظر
برج فیڈریشن آف ایشیا اینڈ مڈل ایسٹ چیمپئن شپ مہمان کھلاڑی حویلی ریسٹورنٹ پہنچ گئے
کھیل سے امن کا پیغام دینے آئے ہیں.بھارتی ٹیم کے کپتان کی پریس کانفرنس
وادی طائف کی مسجد جو حضور اقدس نے خود بنائی، مسجد کے ساتھ کن اصحاب کی قبریں ہیں ؟
9 مئی کے بعد زمان پارک کی کیا حالت ہے؟؟
ترجمان پی ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ صوبہ بھر میں عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پی ڈی ایم اے کا ریلیف آپریشن 9 جولائی سے جاری ہے۔صوبہ بھر میں اب تک 222 ریلیف کیمپس لگائے گئے ہیں۔حفاظتی اقدامات کے ذریعے قیمتی انسانی جانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔سیلابی ریلوں سے ننکانہ میں 454،اوکاڑ ہ 4075، قصور 7039،ویہاڑی 100 ،مظفر گڑھ 2124،خانیوال 48،ننکانہ 454افرا د کومحفوظ مقامات پرمنتقل کیاگیا۔ قصورمیں 47058، اوکاڑہ 69868 ویہاڑی 1349 سیالکوٹ میں 41ننکانہ 1013لیہ میں 214افراد کو ٹرانسپورٹ مہیا کی گئی۔اسی طرح قصورمیں 2412،مظفر گڑھ 1758،ننکانہ 885،اوکاڑہ 132، ویہاڑی 305،خانیوال میں 200مویشیوں کو ریسکیو کیا گیاجبکہ ننکانہ میں 855 افراد میں راشن کے بیگز تقسیم کئے گئے۔
ترجمان نے بتایا کہ سیلابی پانی سے بہاولپور میں تین، اوکاڑہ 77جھنگ 40مظفرگڑھ پانچ خانیوال 23ننکانہ 8لیہ میں 65 بستیاں پانی سے متاثر ہوئیں۔بہاولپور میں 220ایکڑ، اوکاڑہ میں 20275ایکڑ، ویہاڑی 19061ایکڑ، خانیوال 9ہزار ایکڑننکانہ 816ایکڑلیہ 5762ایکڑ فصلوں کو نقصان پہنچا۔ نگراں ڈ ی جی پی ڈی ایم ایعمران قریشی نے کہا کہ سیلابی پانی سے اوکاڑہ میں ایک شخص جاں بحق جبکہاوکاڑہ میں چار اور سیالکوٹ میں چھت گرنے سے د و افراد زخمی ہوئے۔پی ڈی ایم اے کنٹرول روم 24 گھنٹے دریاؤں کی صورتحال مانیٹر کر رہا ہے۔ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کی محنت لائق تحسین ہے