بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے اموات کا ذمہ دار کون؟ سینیٹر طلحہ نے کیا جواب طلب

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمدطلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر میاں رضاربانی کے ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ترمیمی بل2019، سینیٹر سسی پلیجو کی سی ایس ایس کے امتحان کے سلیبس، پمز کارڈیک سینٹر کے میڈیکل سٹاف کے کنٹریکٹ میں توسیع اور مستقبل کرنے کے معاملات کے علاوہ نیپرا کی طرف سے بجلی پیدا کرنے اور تقسیم کار کمپنیوں کیلئے حادثات کے کنڑول کیلئے قائم کردہ معیار اور کراچی میں بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے اموات کے حوالے سے نیپرا کی طرف سے متعلقہ ادارے کی ذمہ داری متعین کرنے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سینیٹ سے جاری اعیلامیے کے مطابق قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سی ایس ایس کے موجودہ نصاب کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ سی ایس ایس کے نصاب میں 2016 میں اصلاحات لائی گئی تھیں اب ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جو اس کا جائزہ بھی لے رہی ہے۔ ٹاسک فورس کیا کرنا چاہ رہی ہے پارلیمنٹ کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹر میاں رضاربانی کے دور میں بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے سی ایس ایس کے معاملات پر تفصیلی اجلاس منعقد کیے تھے۔ اس کی رپورٹ پر ہاؤس میں بحث ہونی چاہیے تھی۔

سینیٹرطلحہ محمود بازی لے گئے، باقی سب دیکھتے رہے

جس پر سیکرٹری فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ سی ایس ایس کا سلیبس دو حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔45 آپشنل مضامین میں سے 600 نمبر کے مضامین سلیکٹ کیے جاتے ہیں اور600 نمبر کے کمپلسری مضامین شامل ہوتے ہیں۔2016 میں جو نصاب بنایا گیا تھا اس میں تمام اکیڈیمیا، ایچ ای سی، مضمون ماہرین اور گروپس کی 12 اکیڈمیاں بھی شامل تھیں۔ ہماری ایک ریسرچ ونگ ہے جو سالانہ رپورٹ میں ہر مضمون کے حوالے سے تفصیلی جائزہ لیتی ہے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس نے سروس اسٹراکچر، امتحان کا طریقہ کار اور دیگر چیزوں کا جائزہ لیا تھا۔ کمیٹی نے حتمی سفارشات نہیں دی تھیں۔ وزیر پارلیمانی امور سینیٹر محمد اعظم خان سواتی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ سینیٹ کی طرف سے ماہرین سے مل کر سفارشات تیار کی جائیں۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس وقت کی ضرورت کیا ہے اور ہم کہاں پر کھڑے ہیں۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ پبلک سرونٹ ایک ٹرم ہے مگر افسران باہر کے لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں ان کی تربیت کی ضرورت ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف پی ایس سی سول سروس ریفارمز ٹاسک فورس کے ساتھ ملکر کام کر رہی ہے۔آج کے سلیبس میں 2016 سے پہلے کے حساب کو کم کیا گیا ہے۔ مختلف مضامین کے200 نمبرز کو کم کر کے 100کر دیا گیا ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹاسک فورس چار شعبے میں کام کر رہا ہے اورسول سرونٹس کی نفسیاتی جائزہ کے پہلو پر بھی ٹاسک فورس کام کر رہا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ بہتر یہی ہے کہ پہلے ٹاسک فورس کے سربراہ سے بریفنگ حاصل کر کے پھر اس پر فیصلہ کیا جائے۔

سینیٹر طلحہ محمود کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس، اہم امور کا جائزہ لیا گیا

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر میاں رضا ربانی کے بجلی کی پیداوار،ٹرانسمیشن اور تقسیم سے متعلق ترمیمی بل 2019 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ میاں رضاربانی نے کہا کہ چھوٹی سی ترمیم ہے جو ریگولیشن ایکٹ کے سیکشن 3 کو ڈیل کرتی ہے جس میں کسی اتھارٹی کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری پر قانون سازی کی گئی ہے۔چیئرمین کو وفاق لگاتا ہے جبکہ ممبران کی نامزدگی صوبوں سے آتی ہے اور وفاق کو صوبدید اختیار حاصل ہے کہ وہ اس نام پر دوبارہ غور کیلئے واپس بھی بھیج سکتا ہے۔

کمیٹی اجلاس میں قائد ایوان سینیٹ سینیٹرسید شبلی فراز کے گزشتہ اجلاس کے دوران پیش کیے گئے بل کا ڈرافٹ بھی پیش کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمدطلحہ محمود نے کہا کہ ڈرافٹ میں وہ چیزیں ڈالی گئی ہیں جس کی کمیٹی نے منظوری نہیں دی تھی۔ڈرافٹ کو سیل کر کے اس کی انکوائری کرائی جائے گی۔ سینیٹر میاں رضاربانی نے کہا کہ ہمیں اس مائینڈ سیٹ سے نکلنا ہو گا کہ صوبوں کے پاس صلاحیت نہیں،صلاحیت صرف وفاق کے پاس ہے۔ممبران کی کولیفکیشن صوبے خود دیکھیں گے۔اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو مشترکہ مفادات کونسل موجود ہے۔تنازعات کے حل کیلئے ہی مشترکہ مفادات کونسل موجود ہیں۔400سے زائد دن گزرنے کے باوجود مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں ہو رہا۔قانون کے مطابق 90 دن کے بعد اجلاس ہونا چاہیے۔

طلحہ محمود فاؤنڈیشن کی جانب سے مستحق خاندانوں میں جہیز پیکج کی تقسیم

انہوں نے کہا کہ تمام اخبارات میں سی ای او پی آئی اے کی تقرری کیلئے اشہارات شائع کروایا۔جس میں سی ای او کیلئے ملٹری سٹاف کالج سے فارغ التحصیل اور ملٹری کا تجربہ ہونا لازم تھا۔جب وفاق اپنے مطابق قانون سازی کر سکتی ہے تو صوبے بھی اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی کا حق رکھتے ہیں۔

سینیٹر روبینہ خالدنے کہا کہ صوبوں کو نامزدگی کے طریقہ کار دیئے جائیں گے تو اس پر عمل ہو گا۔سیکرٹری وزارت توانائی نے کہا کہ صوبائی نمائندگی کا مسئلہ ہے۔ اتھارٹی کا چیئرمین وفاق اور ممبران صوبوں کی مشاورت سے صوبوں سے تعینات کیے جاتے ہیں اور ہمیشہ صوبوں سے نامزدگی حاصل کی جاتی رہی ہے۔چیئرمین کا تقرر تمام قانونی تقاضے پورے کر کے کیا جاتا ہے۔ مگر صوبوں سے ممبران ان تمام قوانین سے گزر کر نہیں آتے۔چیئرمین اور ممبران پبلک سرونٹ ٹریٹ کیے جاتے ہیں۔اگر ممبر کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہو تووفاق دوبارہ غور کرنے کی درخواست کرتا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت بین الصوبائی رابطہ کی اس حوالے سے رائے آ جائے تو پھر اس پر فیصلہ کیا جائے۔ جس پر چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ اگر وزارت کی طرف سے 17 اکتوبر تک کوئی رائے آئی گئی تو ٹھیک ورنہ اس بل کی اسی دن منظوری دے دی جائے گی۔ کمیٹی اجلاس میں کمیٹی کی سفارشات پر پمز کے ڈاکٹرز کی کنٹریکٹ میں توسیع اور مستقل کرنے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔کارڈ یک کے ڈاکٹرز نے ایف پی ایس سی امتحانات دیئے ہیں۔کچھ نے ٹیسٹ پاس کئے ہیں اور کچھ نے نہیں۔

فضول آدمی کی کہیں گنجائش نہیں ہوتی سوائے سرکار کے، سینیٹر طلحہ محمود

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزیر علی محمد خان نے کمیٹی اجلاس میں جو کمٹمنٹ کی تھی ان کے مسئلے کو حل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ کارڈیک سینٹر کے ڈاکٹرز کئی سالوں سے خدمات فراہم کر رہے ہیں مگر انہیں ریگولر نہیں کیا جارہا وہ ڈاکٹر کس طرح 20 سال پہلے کا پڑھا ہوا آج ٹیسٹ دے سکتے ہیں ان کیلئے کمیٹی نے واضح ہدایت کی تھی کہ کوئی درمیانی راستہ نکال کر ان کے مسئلے کو حل کیا جائے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تعلیمی اداروں کی حالت زار، کمیٹی میں ہوا انکشاف

سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا کہ کوئی ڈینٹل سرجن پمز کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہیں بن سکتا اور ایک ای ڈی کو فارغ بھی کیا گیا تھا۔ مگر موجودہ ای ڈی بھی ڈینٹل سرجن ہے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر عمل کیا جارہا ہے اور دوسرے فیصلے کا کیا ہوگا۔ کارڈیک سینیٹر کے ڈاکٹرز نے ہزاروں مریضوں کو نئی زندگی دی ہے ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے ان کے مسئلے کا حل کرنا چاہیے۔سیکرٹری صحت نے کہا کہ پمز کارڈیک کے ڈاکٹر بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور سپریم کورٹ نے انہیں اضافی نمبر دے کر ایف پی ایس سی کے ذریعے امتحان پاس کر کے ریگولر کرنے کا کہا ہے۔ڈاکٹر فیصل نے کمیٹی کو بتایا کہ اضافی نمبر انٹرویو میں دیے جاتے ہیں تحریری ٹیسٹ پھر کس لیے لیا گیا ہے۔12 ہزار امیدواروں میں سے صرف290 نے پاس کیا ہے۔ ہم 18 سال پہلے کے پڑھے ہوئے کا اب کس طرح ٹیسٹ دے سکتے ہیں۔جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اسٹبلشمنٹ ڈویژن، ایف پی ایس ای وزیر پارلیمانی امور کے ساتھ مل کر ڈاکٹروں کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کوئی راستہ نکالیں۔

ملک میں سول مارشل لا ہے، سینیٹر طلحہ محمود نے ایسا کیوں کہا؟

کمیٹی اجلاس میں ڈی جی نیپرا نے بتایا کہ ایس او پی کے تحت ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو عوام اور ملازمین کے جان و مال کی تحفظ کی ہدایات دیں ہوئی ہیں۔ایس او پی صرف مون سون تک محدود نہیں۔جولائی اور اگست میں کراچی میں شدید بارشوں سے 35لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔ رولز کے مطابق حادثے کی تفصیلات فراہم کرنا ہر ڈسکو پر لازم ہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ میری انفارمیشن کے مطابق حکومتی کی کمپنیوں کی طرف سے بے شمار لوگوں کی اموات ہوئی ہیں اس کی رپورٹ ہی نہیں کی گئی۔فیصل آباد، لاہور، کراچی اور دیگر علاقوں میں حیران کن حادثات ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ کے الیکٹرک صحیح تعاون نہیں کر رہا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اگر کمپنیاں خود رپورٹ نہ کریں تو وہ خلاف ورزی کی مرتکب ہیں۔ کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔چیئرمین کے الیکٹرک اکرام سہگل نے کمیٹی کو بتایا کہ 40فیصد کراچی ان پلانڈ ہے۔ کوڑا کی وجہ سے پانی جمع ہوا اور جانوں کا ضیاع ہوا۔کوڑے کی وجہ سے کہیں 6 چھ فٹ پانی کھڑا ہو گیا تھا۔ انٹرنیٹ اور کیبل کی وجہ سے لوگوں کو کرنٹ لگے۔گزشتہ50 سالوں کی نسبت اس سال4 گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ نیپرا نے بارہا ہماری کارکردگی کو دیگر ڈیسکوز کی نسبت سراہا ہے۔

چیف ڈسٹر ی بیوٹر کے الیکٹرک نے کمیٹی کو بتایا کہ کے الیکٹرک دو صوبوں 65 ہزار سکویئر کلو میٹر کے علاقے کو کور کرتی ہے۔ بہتری کیلئے ننگے کنڈیکٹر ز کو اے بی سی کیبل تبدیل کیا۔نیپرا نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس نے اپنی رپورٹ دی ہے کہ اور 35 اموات میں سے19 اموات کی ذمہ داری کے الیکٹرک پر ڈالی ہم بھی انکوائری کر رہے ہیں ، یہ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی۔ 29میں سے15 اموات حادثات کی وجہ سے ہوئیں۔14 کو کرنٹ لگا،8 کرنٹ اموات میں ہمارا سسٹم شامل تھا جبکہ 6 میں شامل ہی نہیں تھا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ شہر کے اندر 3 سے5 لاکھ کنڈے ہیں۔

گزشتہ6 ماہ کے دوران2 لاکھ کے جی کنڈے اتارے۔1850 فیڈز ہیں بارش کا پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے 450 کو بند کرنا پڑا۔بہتر بجلی کی ترسیل کیلئے کے الیکٹرک نے25 ارب اضافی خرچ کیے ہیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمو دنے کہا کہ نیپرا نے کے الیکٹرک کے حوالے سے مختلف معلومات دی تھیں۔ کمیٹی وہاں کو دورہ کر کے معاملات کا جائزہ لے گی اور نیپرا تین دن کے اندر تمام ڈیسکوز کی بارش کے دوران ہونے والی اموات کی رپورٹ کمیٹی کو فراہم کرکے اور جن ڈیسکوز نے نیپرا کو معلومات فراہم نہیں کی ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز محمد جاوید عباسی، نجمہ حمید، روبینہ خالد، مشتاق احمد، انور لال دین، مشاہد اللہ خان، ثمینہ سعید، ہدایت اللہ، ڈاکٹر اشوک کمار، میاں رضاربانی اور سسی پلیجو کے علاوہ و فاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی، سیکرٹری صحت، سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن، سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن، سیکرٹری ایف پی ایس سی،چیئرمین ایف پی ایس سی،سیکرٹری توانائی،چیئرمین کے الیکٹرک دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

Comments are closed.