میں نے دیکھا ۔۔۔ کہ ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے کچھ بونس پوائنٹس یا coins وغیرہ کی آفر ملتی ہے۔ اُنہیں پاکٹ کر لینے سے آپ کی قوت و طاقت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِس اضافی قوت کے استعمال سے آپ کوئی بڑی گھاٹی، بڑی رکاوٹ زیادہ بڑا جمپ لے کر عبور کر جاتے ہیں۔
پرسوں رات کیا ہوا؟ ۔۔۔ میرے بڑے بھائی لاہور سے اسلام آباد سفر کے دوران ایک جان لیوا حادثے میں بال بال بچ گئے۔
یہاں پی ڈبلیو ڈی سوسائٹی کے آس پاس والے علاقے میں ایک جگہ سڑک زیرِ تعمیر ہے۔ ایک جگہ road divider کا کچھ حصہ ایسی ایبنارمل حالت میں پڑا ہے کہ وہاں ہر روز ایک نیا حادثہ جنم لیتا ہے۔
اندھیرے میں میرے بھائی کی گاڑی کا ٹائر بھی ذرا سا سلِپ ہو کر اوپر چڑھا تو گاڑی بے قابو ہو کر ڈِیوائیڈر پر چڑھ دوڑی۔ اب قریب تھا کہ گاڑی وَن وے سڑک کے دوسری جانب اتر کر فاسٹ ٹریک پر چڑھ جاتی اور بیسیوں تیز رفتار گاڑیاں اُس کا کچومر بنا دیتیں، گاڑی یکلخت رُک گئی۔ رکتے ہی، حیرت انگیز طور، کوئی پانچ درجن افراد نے گاڑی کو گھیر لیا۔ یعنی مدد اور حال احوال پوچھنے کی غرض سے۔
بھائی کہتے ہیں، پہلے تو میں یہ دیکھ کر حیران کہ رات گئے اتنے لوگ ! ۔۔۔ وہ بھی ایکدم سے!! ۔۔۔ اور دردمندی کا ایسا اظہار، اور پھر گاڑی نکال لے جانے میں مدد۔۔!! ۔۔۔ بتایا گیا، "آپ سے پہلے ہم دو ڈَیڈ باڈیز اٹھا چکے ہیں۔ اُن دونوں حضرات کی گاڑیاں بھی مکمل تباہ ہو گئی تھیں۔ حیرت ہے آپ کو خراش تک نہیں آئی، اور آپکی گاڑی بھی صحیح سلامت۔ ورنہ اِس صورتحال میں بچت کا امکان تقریباً صفر برابر ہے۔”
میں نے بھائی سے پوچھا آپ یہاں اسلام آباد وارد ہونے سے قبل لاہور کیا لینے گئے تھے، کس کام سے؟
جواب ملا، ماموں کے جس بیمار بیٹے کا لاہور سے علاج کروایا تھا، لاہور میں ہی اس کی جاب کروا دی تھی۔ اب مہینہ بھر گذر چکا تو اُسے گھر والوں سے ملوانے خود لاہور سے لا کر گاؤں میں ڈراپ کیا تھا۔ ساتھ میں اُن کے گھر تیس چالیس ہزار روپے کا راشن بھی ڈال آیا کہ مہنگائی بہت ہے ۔۔۔
بس بات میری سمجھ میں آ گئی۔
کتابِ تقدیر میں درج شیڈول کے مطابق قضا نے اپنا پنجہ مار کر بھائی کو اُچک لینا چاہا تھا۔ مگر "ویڈیو گیم پلیئر” نے راستے میں میسر آئے کچھ بیش قیمت coins پاکٹ کر رکھے تھے۔ چنانچہ گیم پلئیر اپنی اضافی قوت سے تقدیر کی بچھائی اِس موت کی گھاٹی کو بڑا جمپ لے کر عبور کر گیا تھا۔
ایک بار پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کی زبان سے سنا کہ تقدیر کوئی اتنی بھی اٹل شے نہیں ہے۔ شطرنج کی بساط کی طرح اِدھر سے اُدھر ہو جانے والے راستے موجود ہیں۔ اِن کے واضح اشارات قرآن و حدیث میں ہمیں مل جاتے ہیں۔ جیسے ایک حدیثِ رسولؐ کے مطابق اگر کسی شخص کی رخصتی کا وقت قریب آن پہنچا ہے مگر اُس کی زندگی کے حق میں ڈھیر سارے لوگ مل کر دُعا کر دیں تو ایسی دُعا کو honour کیا جاتا ہے۔ اُس شخص کے حق میں ایکسٹینشن دے دی جاتی ہے ۔۔۔ تو گویا یہ بھی coins مل جانے والا معاملہ ہوا۔
بنی اسرائیل کی اُس فاحشہ عورت نے کنویں کنارے پیاس سے ہانپتے کتے کو پانی پلایا تھا۔ اپنے جوتے کو ڈول بنا کر کنویں میں اتارا، پانی بھر کر باہر لائی، پانی پلایا ۔۔۔ اس کے عوض اُسے بہشت والی گاڑی کا ٹکٹ تھما کر بہشتی گاڑی میں بٹھا دیا گیا ۔۔۔۔ تو گویا یہ بھی coins مل جانے والا معاملہ ہوا۔
بس نظر رکھیں، ایسے coins ہمارے گردوپیش میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہ کبھی ہمارے دروازے پر براہ راست دستک دیتے ہیں، تو کبھی راستے میں پڑے ملیں گے ۔۔۔ گاہے فون پر کوئی اطلاع ملنے کی صورت ۔۔۔ کمفرٹ زون سے قدرے باہر آ کر اِنہیں اُچک لینا ضروری ہے۔