شام کے سابق صدر بشارالاسد کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ایران کی مشرق وسطیٰ میں پوزیشن مزید کمزور ہو گئی ہے، اور اسرائیل اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس حوالے سے کئی اہم اور حیران کن تفصیلات سامنے آئی ہیں جن میں بشارالاسد کے شام سے فرار کی کہانی اور اس کے بعد اسرائیل کی سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، بشارالاسد نے اپنے ملک چھوڑنے سے قبل اپنے معاونین، قریبی رشتہ داروں اور فوجی حکام کو بھی اپنی اصل صورتحال سے لاعلم رکھا۔ حتیٰ کہ اپنے چھوٹے بھائی ماہر الاسد اور فوجی کمانڈروں کو بھی ان کی روانگی کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ایک اہم رپورٹ کے مطابق، بشارالاسد نے ملک چھوڑنے سے کچھ گھنٹے پہلے اپنے فوجی افسران سے ملاقات کی اور روس سے فوجی مدد آنے کی یقین دہانی کرائی۔ اسی دوران، بشارالاسد نے اپنے دفتر کے منیجر کو بتایا کہ وہ اپنے گھر جا رہے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہو گئے، جہاں سے وہ روسی ایئر بیس پہنچے اور وہاں سے ماسکو روانہ ہو گئے۔
شام کے حکمران بشار الاسد کی اپنے ملک سے فرار کی تفصیلات اب منظر عام پر آچکی ہیں، جس کے مطابق ان کا یہ فرار روسی حمایت سے عمل میں آیا اور اس کی منصوبہ بندی مکمل طور پر خفیہ رکھی گئی تھی، یہاں تک کہ ان کے قریبی معاونین اور اہل خانہ بھی اس سے لاعلم تھے۔جب باغی فوجیں دمشق کے قریب پہنچنا شروع ہوئیں اور اس بات کا امکان بڑھا کہ بشار الاسد کا اقتدار ختم ہونے والا ہے، تو ماسکو نے مداخلت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ انہیں شام سے باہر نکالا جا سکے۔اس منصوبے کے بارے میں کسی کو بھی اطلاع نہیں دی گئی، اور 8 دسمبر کی صبح جلدی بشار الاسد نے دمشق کے ایئرپورٹ سے اپنے نجی طیارے میں سوار ہو کر سفر شروع کیا۔ طیارہ سمندر کی سمت میں روانہ ہوا اور پھر اچانک غائب ہوگیا، امکان ہے کہ طیارے کے پائلٹس نے فلائٹ ٹریکنگ سسٹم کو بند کر دیا تھا تاکہ ان کی پوزیشن کا پتہ نہ چل سکے۔یہ طیارہ شام کے شہر حمص کے اوپر ایک یو ٹرن لینے کے بعد غائب ہوگیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ طیارہ روسی فضائی اڈے "حمیمیم” کی طرف جا رہا تھا، جو شمال مشرقی شام کے شہر لاذقیہ کے قریب واقع ہے۔یہ نجی طیارہ بعد ازاں حمیمیم ایئر بیس پر پہنچا، جہاں بشار الاسد کو روسی فوجی طیارے میں منتقل کیا گیا اور ماسکو کے لیے پرواز کی گئی۔
اسد کا فوری خاندان، بشمول ان کی برطانوی نژاد بیوی اسماء اور تین بالغ بچے، پہلے ہی ماسکو پہنچ چکے تھے، جہاں انہیں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی طرف سے پناہ دی گئی تھی۔اس کے فوراً بعد، اسلامی گروہ "حیات تحریر الشام” کی قیادت میں باغیوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا اور اسد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی بشار الاسد اور ان کے خاندان کا 50 سالہ حکومتی دور اور 24 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا، جس نے شام میں جاری خونریز 13 سالہ خانہ جنگی کو بھی ایک نیا موڑ دیا۔باغیوں نے اسد کے محلوں اور ذاتی گھروں پر دھاوا بول دیا، اور لوٹ مار کے دوران ان کے ذاتی سامان اور عیاشی کی زندگی کی تصاویر سامنے آئیں۔ ایک ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا کہ اسد کے گھر میں پکایا ہوا کھانا چولہے پر رکھا تھا، جبکہ خاندانی فوٹو البمز اور دستاویزات بھی بکھری ہوئی تھیں۔
سات دن بعد اسد نے اپنی خاموشی توڑی اور اپنے پریسیڈنشل ٹیلی گرام چینل پر ایک حیران کن بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے شام چھوڑنے کے اپنے آخری لمحات کی تفصیلات دی۔انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ 8 دسمبر کی صبح دمشق سے حمیمیم کی طرف روانہ ہوئے، لیکن ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ شام چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے کیونکہ روسی فضائی اڈہ ڈرون حملے کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں روس نے ان کی ایمرجنسی ایواکیوشن کا حکم دیا۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے شام چھوڑنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے انہیں اقتدار چھوڑنے یا پناہ گزینی کی تجویز دی۔ "میں دمشق میں اپنے فرادی ذمہ داریوں کو پورا کر رہا تھا اور دہشت گردوں کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا”، اسد نے اپنے آپ کو ایک محب وطن رہنما اور خاندان کے فرد کے طور پر پیش کیا جو اپنے عوام کے ساتھ جنگ کے دوران موجود رہا، حالانکہ ان کی افواج، جو روس، حزب اللہ اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ساتھ تھی، ہزاروں شہریوں کے قتل کی ذمہ دار تھیں۔
ہفتہ کے روز، جب بشار الاسد ماسکو کے لیے روانہ ہو رہے تھے، انہوں نے دفاعی وزارت میں تقریباً 30 فوجی اور سیکیورٹی افسران سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ روسی فوجی مدد جلد پہنچنے والی ہے اور فورسز کو دباؤ کا سامنا کر کے لڑنے کی ہدایت دی۔ ایک افسر کے مطابق اس ملاقات کے دوران اسد نے اپنی فوجیوں کو ہمت دی تھی۔اسد کے دفتر کے اسٹاف کو بھی ان کے فرار کے منصوبے کی خبر نہیں تھی۔ اس کے ایک معاون نے بتایا کہ اسی رات اسد نے اپنے میڈیا مشیر بثینہ شعبان کو گھر آنے اور ان کے لیے خطاب لکھنے کو کہا، لیکن جب وہ پہنچیں تو وہاں کوئی نہیں تھا۔اسد کے آخری وزیر اعظم، محمد جلالی نے اس ہفتے سعودی ٹی وی "العربیہ” کو بتایا کہ انہوں نے 8 دسمبر کی رات اسد سے بات کی تھی، اور اسد نے ان سے کہا تھا: "کل ہم دیکھیں گے، کل، کل۔”جلالی کے مطابق، اسد کا آخری جملہ یہی تھا، اور جب انہوں نے اگلے دن صبح اسد کو دوبارہ کال کرنے کی کوشش کی، تو ان کا فون بند تھا۔
بشارالاسد کے فرار کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ ان کا اقتدار اب ختم ہو چکا تھا۔ شامی حکومت کے اہم عہدے داروں اور ایرانی حکام سے مل کر بشارالاسد نے اپنا بچاؤ کرنے کی کوشش کی، لیکن جب روس نے ان کی فوجی مداخلت کی درخواست کو نظرانداز کیا، تو وہ مجبور ہو گئے کہ ملک چھوڑ کر روس چلے جائیں۔اسرائیل کی فوج نے شام میں اپنے اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کیا اور اس نے شام کی اہم دفاعی تنصیبات کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔ اسرائیل کی فضائیہ نے شام کے فضائی دفاع کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا اور اس کے بعد اسرائیلی فورسز نے شامی سرحد کے بفر زون کو پار کر لیا، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے اہم اسٹریجک پہاڑی "ماؤنٹ حرمن” کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔اسرائیل کی دفاعی افواج کا خیال ہے کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے اور ایران کے پراکسیز کی کمزوری کے بعد ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا موقع میسر آ چکا ہے۔ اسرائیل کی فضائیہ اس وقت ایران پر حملوں کے لیے اپنی تیاریوں کو مزید مستحکم کر رہی ہے، اور اس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچانا ہے۔
بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کو سب سے بڑا نقصان پہنچا ہے کیونکہ شام ایران کا اہم اتحادی تھا اور اس کی حکومت کے تحت ایران کی حمایت یافتہ تنظیموں کا اہم نیٹ ورک قائم تھا۔ ایران کی حمایت یافتہ تنظیموں میں حزب اللہ، حماس اور یمن کے حوثی باغی شامل ہیں جو اسرائیل اور دیگر عرب ممالک کے لیے ایک بڑا چیلنج تھے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کو امریکہ اور اسرائیل کی سازش قرار دیا ہے اور اس میں شام کے ہمسایہ ممالک خاص طور پر ترکی کے کردار کا ذکر کیا ہے۔ تاہم، ایران کی اس سازش میں کامیابی کے باوجود اسرائیل نے شام میں اپنی پوزیشن مضبوط کی اور ایران کے خلاف فضائی کارروائیاں تیز کر دیں۔
شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد باغیوں نے عبوری حکومت قائم کر لی ہے، جس کی قیادت ابو محمد الجولانی کر رہے ہیں، جو ماضی میں القاعدہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ اس تبدیلی کے بعد، شام میں ایران کا اثر و رسوخ تقریباً ختم ہو چکا ہے، اور اسرائیل نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔شام کے نئے حکومتی ڈھانچے کی قیادت ابو محمد الجولانی کر رہے ہیں، اور انہوں نے دمشق کی مسجد امیہ میں اپنے خطاب میں کہا کہ یہ فتح خطے میں نئی تاریخ رقم کرے گی۔ شام میں اس وقت ایک نئی عبوری حکومت قائم ہو چکی ہے، اور اس کے ساتھ ہی شامی شہری بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کا جشن مناتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد اب اپنے وطن واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، باغیوں کی کامیاب پیش قدمی کے بعد بے گھر شامی افراد اپنے گھروں کی طرف واپس آ رہے ہیں، اور اب تک لاکھوں افراد نے اپنے ملک واپس جانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔بشارالاسد کا اقتدار ختم ہونے کے بعد شام میں ایران کا اثر و رسوخ کم ہو چکا ہے، اور اس کا فائدہ اسرائیل نے بھرپور انداز میں اٹھایا ہے۔ اسرائیل نے شام میں اپنی فضائی برتری قائم کرتے ہوئے ایران کے خلاف ممکنہ حملوں کے لیے اپنی تیاریوں کو مزید تیز کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ، شام میں باغیوں کی حکومت کا قیام اور شامی مہاجرین کی واپسی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں ایک نیا سیاسی منظرنامہ ابھر رہا ہے۔