بشیر میمن کو ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل جبری طورپر حکومت نے عہدے سے فارغ کر دیا تھا

نیوٹن لا کے مطابق ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے،تو بشیر میمن کے حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کے پیچھے چھپی کہانی بھی منظر عام پر آ گئی ہے۔سینئر صحافی و اینکر پرسن کامران خان نے نجی ٹی وی چینل کے اپنے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے نے وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر لوگوں پر جو الزامات لگائے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل انہیں حکومت نے عہدے سے جبری طور پر فارغ کر دیا تھا جبکہ ان کی پینشن اور دیگر مراعات بھی انہیں نہیں دی گئی تھیں۔
اکاؤنٹس آفس سے ان کی کٹوتی کی رقم جو انہیں ملی وہ بھی اکاؤنٹ سے واپس واگزار کروا لی گئی تھی۔کامران خان نے کہا کہ کسی بھی سینئر عہدیدار کا سبکدوشی کے وقت جو حق ہوتا ہے حکومت نے وہ بھی بشیر میمن صاحب کو نہیں دیا تھااس ظلم کے خلاف انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو عدالت سے وہ کیس جیت گئے مگر اس کے بعد حکومت نے اپیل دائر کر دی اور اس طرح ایک سینئر افسر کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
کامران خان کا کہنا تھا کہ آج کی ڈیٹ تک بھی سابق ڈی جی ایف آئی اے کے اکاؤنٹ میں ان کی پینشن نہیں آ سکی اور انہیں دیگر بھی کوئی مراعات یا وہ رقم نہیں ملی جو دوران سروس ان کی تنخواہ سے کٹا کرتی تھی۔سینئر صحافی کامران خان نے کہا کہ بشیر میمن کی تعیناتی اس وقت ہوئی تھی جب عمران خان نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا تھا۔اس وقت بشیر میمن اومنی گروپ اور جعلی اکاؤنٹس سے متعلق تحقیقات کر رہے تھے تاہم جب بعد میں جج ارشد ملک کی ویڈیو کا کیس منظر عام پر آیا تو ا س وقت وزیراعظم اور بشیر میمن کے درمیان معاملات خراب ہوئے کہ شاید جس طرح سے حکومت تحقیقات چاہتی تھی اس طرح سے بشیر میمن تحقیقات نہیں کر پائے تھے اور اسی ایشو کی بنا پر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
مگر یہ بھی ہے کہ جب بشیر میمن صاحب عدالت میں اپنا کیس لڑ رہے تھے تب انہوں نے ایسے کوئی الزامات نہیں لگائے تھے اور نہ ہی عوام کو یہ بتایا تھا کہ حکومت نے انہیں زیادتی کرتے ہوئے وقت سے پہلے جبری ریٹائر کردیا ہے۔

Comments are closed.