بلے کا نشان کیس، فیصلہ نہیں کرسکتے،9 جنوری کو ڈویژن بنچ کیلئے لگا ہے،جسٹس اعجاز خان

bat

پشاور: پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس،الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی

جسٹس اعجاز خان نے اپیل پر سماعت کی، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے دلائل دیئے، الیکشن کمیشن وکیل نے جسٹس کامران حیات کا فیصلہ عدالت میں پڑھا،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چھٹیوں کے دوران اس عدالت کے جج نے فیصلہ معطل کیا، پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی کا انٹرم ریلیف اور حتمی استدعا ایک ہی ہے،ہائیکورٹ کا فیصلہ یکطرفہ کارروائی ہے، الیکشن کمیشن کو نہیں سنا گیا، الیکشن کمیشن کیس کا بنیادی فریق ہے، عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو سنا جو صوبائی و وفاقی حکومت کے نمائندے ہیں،

جسٹس اعجاز خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کوئی ایسا آرڈر دیا کہ کیا ایک ہائیکورٹ کا حکم پورے ملک کیلئے ہوتا ہے، اخبار میں پڑھا تھا، کیا ایسے کوئی حکم ہے بھی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بالکل سپریم کورٹ نے آر اوز سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا تھا، پہلا پوائنٹ یہ ہے کہ یکطرفہ کارروائی کے تحت فیصلہ معطل کیا گیا، دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ انٹرم ریلیف اور حتمی استدعا ایک ہی ہے،جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ کیس میں اصل درخواستگزار کہاں ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مجھ ےمعلوم نہیں، شاید وہ خود پیش نہیں ہوئے، جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ اس کیس میں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے،9 جنوری کو ڈویژن بنچ کیلئے لگا ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا ہے کہ کوئی فیصلہ دیا جائے، صرف معطلی کا فیصلہ واپس لیا جائے، کیس پر پھر ڈویژن بنچ کے سامنے دلائل دینگے، 9 جنوری تک معطلی کا واپس لیا جائے،ڈویژن بینچ قائم کیا جائے تاکہ کیس کی سماعت صحیح طریقے سے ہو سکے، دونوں پارٹیوں کو سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے

ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت میں کہا کہ ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے، ہماری نگراں صوبائی حکومت ہے، ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں برابر ہیں، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمیں اس کیس سے نکالا جائے، اگر ہمیں نوٹس جاری کیا جاتا ہے تو پھر عدالت کی معاونت کریں گے،جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کا بھی یہی مؤقف ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہمارا بھی یہی مؤقف ہے،الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ صرف صوبے تک فیصلہ کر سکتی ہے، انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہوئے ہیں،دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا

واضح رہےکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو آئین کے برخلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم کیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھن گیا تھا تاہم تحریک انصاف نے کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا،پشاورہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق الیکش کمیشن کافیصلہ معطل کرتے ہوئے تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلا بحال کیا تھا

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا واپس لے لیا تھا، تحریک انصاف نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی، جس پر عدالت نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا واپس دینے کا حکم دیا تھا ،تاہم ابھی تک پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہیں مل سکا، الیکشن کمیشن کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے تو وہیں بانی رہنما تحریک انصاف اکبر ایس بابر نے بھی پشاور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کر رکھا ہے.

Comments are closed.