پشاور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ، تحریک انصاف سے "بلا”پھر لے لیا گیا

بلے کا نشان، بیرسٹر گوہر کا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان
0
289
bat

پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز خان نے 6 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا،تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ عدالت نے دائرہ اختیار کو نظر انداز کیا،مقدمے میں مرکزی فریق کو بغیر سنے حکم امتناع جاری کیا گیا، دیا جانے والا انٹر ریلیف پورے مقدمے پر اثر انداز ہوا ہے، فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت حکم امتناع کو واپس لیتی ہے، الیکشن کمیشن آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کا انعقاد کرے، درخواست گزار کے تحفظات مرکزی درخواست میں سنے جائیں گے، جو پہلے سے مقرر کردہ تاریخ پر سنی جائے گی

چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے بلے کا نشان واپس لئے جانے کے فیصلہ آنے پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ ہم اس فیصلے کیخلاف کل سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے،تحریک انصاف سے بلا لینے پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہوگا، آپ ہم سے انتخابی نشان بلا لیں گے تو دنیا کبھی الیکشن قبول نہیں کرے گی،سپریم کورٹ کہہ چکی کہ پارٹی سےانتخابی نشان لینا اسے تحلیل کرنے کے مترادف ہے سپریم کورٹ تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال نہیں کرتی تو ہر امیدوار الگ الگ نشان پر لڑے گا جس سے کنفیوژن پیدا ہوگی،اس سے آپ کرپشن اور ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد رکھیں گے

قبل ازیں پشاور ہائیکورٹ، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس، الیکشن کمیشن کی ہائیکورٹ کے 26 دسمبر آرڈر پر نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی،پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کرتے ہوئے حکم امتناع واپس لے لیا،عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل منظور کی اور الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ بحال کردیا،

جسٹس اعجاز خان نے سماعت کی، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہنمد اور پی ٹی آئی کے وکیل شاہ فیصل اتمانخیل عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس اعجاز خان نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپکے دلائل ہم نے سنے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں سماعت سننے کے لئے آیا ہوں، وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سینئر وکیل قاضی انور آرہے ہیں پھر دلائل پیش کریں گے، ہمیں تھوڑا وقت دیا جائے، عدالت نے کہا کہ ٹھیک ہے جب آپکا مین کونسل آجائے پھر سن لیں گے

الیکشن کمیشن کیخلاف آپکی توہین عدالت کی درخواست نہیں آئی،پشاور ہائیکورٹ کے جج کا پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ
دوبارہ سماعت ہوئی، تو پی ٹی آئی کے سینئر وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ پیش ہو گئے،الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ قاضی انور ایڈووکیٹ میرے استاد ہیں، میں نے وکالت کی پریکٹس ان کے ساتھ شروع کی تھی،قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں اور بیرسٹر گوہر اس کیس میں وکیل ہیں،سیاسی جماعتوں نےعدالت میں کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑی ہیں،جسٹس اعجاز خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ سے سیکھا ہے کہ قانون کے لیے یہ باتیں بے معنی ہیں عدالت سے باہر کیا ہوتا ہے اس کا سماعت کے ساتھ کچھ کام نہیں،قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس کی بھاری نفری موجود ہے، ادھر آتے ہوئے مجھے روکا گیا،میری تلاشی لی گئی، کیا الیکشن کمیشن ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت آ سکتا ہے؟ ان کی رٹ ٹھیک نہیں ہے، 26 دسمبر کو فیصلہ آیا، اس پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن نے اب تک ویب سائٹ پر انٹرا پارٹی انتخابات سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا، جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ کیا اس کے خلاف توہین عدالت درخواست دائر کی ہے۔ آپ کی طرف سے کوئی توہین عدالت درخواست نہیں آئی۔ قاضی انور ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے الیکشن کمیشن بتائے انھیں نے کیا کیا۔9 جنوری کو سماعت کے لئے مقرر ہے, 9 جنوری میں کتنے دن باقی ہیں،الیکشن کمیشن نے استدعا کی ہے کہ 26 دسمبر کا آرڈر واپس لیا جائے۔یہ کیس 9 تاریخ کو ڈویژن بینچ نے سننا،جب انہوں نے ویب سائٹ پر سرٹیفکیٹ پبلش نہیں کیا تو ان کو مسئلہ کیا ہے، جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ یہ اب ان سے ہم پوچھیں گے، قاضی انور ایڈوکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ایک سیاسی جماعت کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا، الیکشن کمیشن کو اس آرڈر سے مشکلات ہے۔جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن عدالت سے رجوع کر سکتا ہے ؟

جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اس کو پہلے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کیا تھا پھر یہاں آگئے، قاضی انور ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس کا مجھے پتہ نہیں ہے، معلومات کروں گا، اس کیس میں ایڈووکیٹ جنرل اور اٹارنی جنرل والے بھی پیش ہوئے، جسٹس اعجاز خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا ہے ہم اس میں فریق نہیں ہیں،وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ اس دن پیش ہوئے لیکن پھر بعد میں ان کو پتہ چلا، اور ان کو کسی نے بتایا کہ آپ کا کام نہیں ہے، اس دن ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ایک گھنٹے سے زائد دلائل دیے، ہم کہتے رہے آپ دلائل پیش نہ کریں آپ کا کام نہیں،

عدالت نےفریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو اب سنا دیا گیا ہے، قاضی انور ایڈوکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کےپاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینےکااختیار نہیں،پی ٹی آئی نے 2013 اور 2018 انتخابات بلےکے نشان پر لڑے ہیں،

واضح رہےکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو آئین کے برخلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم کیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھن گیا تھا تاہم تحریک انصاف نے کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا،پشاورہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق الیکش کمیشن کافیصلہ معطل کرتے ہوئے تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلا بحال کیا تھا

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا واپس لے لیا تھا، تحریک انصاف نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی، جس پر عدالت نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا واپس دینے کا حکم دیا تھا ،تاہم ابھی تک پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہیں مل سکا، الیکشن کمیشن کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے تو وہیں بانی رہنما تحریک انصاف اکبر ایس بابر نے بھی پشاور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کر رکھا ہے.

تمام امیدواران کو الیکشن کا برابر موقع ملنا چاہئے

عام انتخابات کے دن قریب آئے تو تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ 

 این اے 15سے نوازشریف کے کاغذات نامزدگی منظور

نواز شریف پر مقدر کی دیوی مہربان،راستہ صاف،الیکشن،عمران خان اور مخبریاں

الیکشن کمیشن کا فواد حسن فواد کو عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ

ٹکٹوں کی تقسیم،ن لیگ مشکل میں،امیدوار آزاد لڑیں گے الیکشن

تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین چیف جسٹس پاکستان کے سامنے پیش

انتخابات سے متعلق سروے کرنے پر ٹی وی چینلز کیخلاف کارروائی کا حکم

Leave a reply