مزید دیکھیں

مقبول

زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر مہنگا

معیشت میں بڑھتی ہوئی طلب، درآمدی وبیرونی ادائیگیوں کے...

سوتیلے باپ نے 12 سالہ بیٹی کی 60 سالہ شخص سے شادی کرا دی

اٹک میں سوتیلے باپ نے مبینہ طور پر رقم...

کم سن امریکی بچوں کی نازیبا وڈیوز بنانے والا ملزم کراچی سے گرفتار

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے امریکی قونصل خانے کی...

پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کو ایک بار پھر بلے کا نشان واپس کردیا

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان واپسی کیخلاف کیس،پشاور ہائیکورٹ میں درخواست پر سماعت ہوئی

پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق 22 دسمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، بلے کا نشان بحال ہو گیا،پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور سید ارشد علی نے فیصلہ سنا دیا ۔پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کے نشان پر انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی۔پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کر لی

جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی نے سماعت کی، کیس میں فریق جہانگیر کے وکیل نوید اختر ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور کہا کہ آج سپریم کورٹ میں بھی کیس لگا ہے، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ بات کل ختم ہوچکی ہے، انہوں نے بتایا وہ وہاں کیس نہیں کررہے، اگر کل یہ نہ بتایا ہوتا تو ہم پھر پرسوں کی تاریخ دیتے، بیرسٹر ظفر نے سپریم کورٹ میں کیس پرسو نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی،

قاضی جواد ایڈوکیٹ نے کہا کہ میرے موکل پی ٹی آئی کے سابقہ ضلعی جنرل سیکرٹری رہے ہیں،میرے موکل کو میڈیا سے پتہ چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں،وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا،جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائے، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا تو آپ کو چاہیئے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے،آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیئے تھا آپ نے نہیں کیا،قاضی جواد نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے،انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہے، ہائیکورٹ صرف صوبے کو دیکھ سکتا ہے، جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ کیا ہر صوبے میں الگ الگ کیس کرنا چاہئے تھا انکو۔?انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا تو یہاں پر کیسے کیس نہیں کرسکتے۔ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ جو الیکشن ہوئے اس میں تمام ممبران الیکٹ ہوئے یا صرف صوبے کی حد تک,قاضی جواد ایڈوکیٹ نے کہا کہ پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اچھا آپ یہ بتائیں آپکی پارٹی ہے تو کیا انکو انتخابی نشان ملنا چایئے،قاضی جواد نے کہا کہ میں رولز کی بات کرتا ہوں جو قانون ہے وہی ہونا چاہئے،جسٹس ارشد علی نے کہا کہ نہیں ویسے آپ کیا چاہتے ہیں ان کیخلاف انتخابی نشان واپسی کی کارروائی ٹھیک ہے،قاضی جواد ایڈوکیٹ نے کہا کہ میں تو قانون کی بالادستی کی بات کرتا ہوں قانون کے مطابق کارروائی کو سپورٹ کرتا ہوں،ماضی میں ایک پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور ایک ہی انتخابی پر مسئلہ کھڑا ہوا،الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان پر مسئلہ حل کیا کیونکہ اس کا اختیار حاصل تھا،میں چاہتا ہوں کہ دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوں اور اس میں حصہ لوں ،مختلف ادوار میں پارٹیز کو ختم کیا گیا تو نئی بن گئی،جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ دیکھ لیں وہ مارشل لا کا وقت تھا،

کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے دوسرے وکیل احمد فاروق بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ یہ پارٹی جیسے ہی بنی وہیں سے لاڈلہ پن شروع ہوا، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ قانونی بات کریں، یہاں پر کبھی ایک اور کبھی دوسرا لاڈلہ بن جاتا ہے،احمد فاروق ایڈوکیٹ نے کہا کہ اپنے کارکنوں کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں دیا ، انٹرا پارٹی انتخابات کا اچانک بلبلا اٹھا اور اعلان کیا گیا کہ کابینہ بن گئی، جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ وہی بلبلا ابھی پھٹا ہے، جسٹس اعجاز انور کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے، احمد فاروق ایڈوکیٹ نے کہا کہ انتخابات آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے،الیکشن کمیشن فیصلہ کے خلاف بھی سول کورٹ جانا چاہیئے تھا،

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی،پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی سماعت کر رہے ہیں، پشاور ہائیکورٹ نے تحرہک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کے شواہد دیکھنے سے انکار کر دیا، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن پر بات کی اجازت نہیں دے سکتے اگر اس پر دلائل کی اجازت دی تو بات شواہد پر آئے گی۔نوید اختر نے کہا کہ میں نے اس پر بات کرنی ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کیسے ہوئے،جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ نہیں آپ اس پر بات نہیں کرسکتے ہیں، ہم نے انکو بھی اس پر نہیں سنا، الیکشن کیسے ہوا یہ شواہد پر پھر بات جائیگی،

کیس میں فریق چارسدہ کے جہانگیر کے وکیل نوید اخترنے دلائل دیئے، جسٹس ارشد علی نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر جرمانہ ہوسکتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے یہ کارروائی کی ہے،نوید اختر نے کہا کہ نہیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 215 کے تحت کارروائی کی، جسٹس ارشد علی نے کہا کہ اس سکیشن میں تو انٹرا پارٹی انتخابات کی بات نہیں ہے،نوید اختر نے کہا کہ قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق ہونے چاہئے،اس رو سے انٹرا پارٹی انتخابات خود بخود 215 سکشن میں آتے ہیں، میرے موکل نے پہلے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کیلئے درخواست دی تھی، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ وہ بات تو ختم ہوگئی نا، جب الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیدیا، جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کونسے سیکشن کے تحت اس پارٹی کے خلاف کارروائی کی، وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ سکیشن 215 کے تحت کارروائی کی گئی،عدالت نے کہا کہ 209 کی اگر خلاف ورزی ہو تب ہوسکتا ہے 208 پر تو 215 کے تحت کارروائی نہیں ہوسکتی، سیکشن 209 کہتا ہے رزلٹ 7 دن کے اندر کمیشن میں جمع کیے جائیں انھوں نے تو رزلٹ سات دن کے اندر جمع کیے، وکیل شکایت کنندہ نوید اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دیکھنا تھا کہ سیکشن 208 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے یا نہیں.میرے موکل کی بات اہم ہے،جب آنکھ کھلی تو تب سے اس پارٹی میں ہیں، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپکا مطلب ہے کہ نظریاتی ہے،نوید اختر نے کہا کہ متنازع انتخابات ہوئے، سب نے کہا قبول ہے قبول ہے، سب نے کہا کہ جو بانی چئیرمین کہیں گا وہی ہوگا، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہاں تو سب جماعتیں ایک ہی لوگ چلاتے آرہے ہیں، صرف یہی اور ایک اور پارٹی ہے جو ورکر کو آگے آنے دے رہی ہے،

بیرسٹر علی ظفر ایک بار پھر دلائل کے لیے روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہو یا پشاور ہائیکورٹ، کہی بھی چیلنج ہوسکتا ہے،انتخابات یہاں ہوئے اور سیکرٹری جنرل عمر ایوب کا تعلق بھی اس صوبے سے ہے،اس صوبے میں 2 بار اس پارٹی نے حکومت بھی کی ہے،پورے ملک کی مخصوص سیٹیں اس سے متاثر ہونگی،

مجھے بلے کی آفر ہوئی میں نے انکار کر دیا

بلے کے نشان کے بعد پی ٹی آئی کا نام و نشان بھی ختم ہوجائےگا ۔

 پی ٹی آئی کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسکا اپنا کیا دھرا ہے ،

عمران خان نے تبدیلی کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا

الیکشن میں میں جہاں بھی ہوں گا وہاں جیت ہماری ہی ہوگی

 بانی پی ٹی آئی اب قصہ پارینہ بن چکے

عمران خان ملک میں الیکشن نہیں چاہتا ، وہ صدارتی نظام چاہتاہے 

ممتاز حیدر
ممتاز حیدرhttp://www.baaghitv.com
ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں Follow @MumtaazAwan