پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان کا معاملہ،سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت ہوئی

سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر لی ، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، پی ٹی آئی سے بلا چھن گیا،

سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد تحریک انصاف کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے عام انتخابات 2024ء میں حصہ لے سکتے ہیں

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہاکہ ‏معافی چاہتا ہوں تاخیر ہوئی،فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا نوٹس 2021 میں کیا،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022 تک انتخابات کرانے کا وقت دیا، الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں تھے،پی ٹی آئی شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر نوٹس جاری کیے،لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں زیرالتواء ہوتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرائے گئے،دوبارہ پارٹی انتخابات شکایات ملنے پر انتخابی نشان واپس لیا گیا، پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کا پانچ رکنی بنچ بنا جو زیر التوا ہے،الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر انتخابی نشان پی ٹی آئی سے لے لیا،،پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن کے فیصلے پر ریلیف فراہم کیا، باد ی النظر میں پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرایا اس کا کوئی ثبوت نہیں،پی ٹی آئی نے اپنے ممبران کو انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے سے روکا،پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں جمہوریت کو نظرانداز کیا،الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کے جائزہ کا اختیار ہے،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کیخلاف جابنداری نہیں کی ،پی ٹی آئی نے شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کے شواہد پیش نہیں کیے ،الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کر رہا، فیصلہ،الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت نہیں ہوتی،پی ٹی آئی کے پاس آئین کے مطابق ممبران کو نکالنے کا ثبوت نہیں،
جمہوریت پارٹی کے اندر اور ملک میں بھی ضروری ہے،پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا، عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13جماعتوں کے انتخابی نشان لیے، الیکشن کمیشن نےکہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائی کورٹ نے مسترد کی کہ وہ ممبران ہی نہیں، پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی، ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انٹراپارٹی انتخابات کرانا ہوتے ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کہاں کرا رہے ہیں، پشاور ہائی کورٹ کا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو برا کہنا ان کے سامنے درخواست سے تجاوز تھا

جس وقت فیصلہ سنایا گیا، تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کمرہ عدالت میں موجود تھے، جبکہ عدالت میں دلائل دینے والے بیرسٹر علی ظفر فیصلے سے قبل روانہ ہو گئے تھے،پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے،حامد خان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے،اٹارنی جنرل کا عملہ،الیکشن کمیشن کے وکلا، میڈیا کی بڑی تعداد سپریم کورٹ میں موجود تھی،سپریم کورٹ نے ساڑھے نو بجے فیصلے کا وقت دیا تھا تا ہم فیصلہ تاخیر سے سنایا گیا،

اکبر ایس بابر فیصلہ سنے بغیر سپریم کورٹ سے راونہ ہو گئے، اس موقع پر انکا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن جمہوریت کی بنیادی ضرورت ہے،انٹرا پارٹی الیکشن کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں لوگوں کو شعور ملا۔فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کا اختیار ہے، جوبھی فیصلہ ہوا ہمیں منظور ہے۔

سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کو بلّے کے نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو اب سنا دیا گیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دلائل دونوں جانب سے اچھے دیئے گئے، ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے،سانس لینے دیں، دلائل جذب کرنے اور نتیجہ تک پہنچنے کیلئے وقت درکار ہے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں، گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پر سوالات اٹھایا تھا ،پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے بھی عدالت کے سامنے انٹراپارٹی انتخابات کی شفافیت بارے تفصیلات پیش کیں،

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان کمرہ عدالت میں موجود تھے،پی ٹی آئی کے وکلاء حامد خان، علی ظفر اور نیاز اللہ نیازی کمرہ عدالت میں موجودتھے،حامد علی خان نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں بیرسٹر علی طفر نے دلائل دیے تھے اگر عدالت اجازت دے تو بیرسٹر علی ظفر دلائل دیں ،پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کردیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے، حامد خان نے کہا کہ فیصلہ پڑھا ہے پشاور ہائی کورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے،وقت کی قلت ہے اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں اور کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں، علی ظفر نے کہا کہ عدالت کی معاونت کروں گا لیکن آج انتخابی نشان اور حتمی فہرستوں کے اجراء کی آخری تاریخ ہے،

انٹراپارٹی انتخابات صرف سول کورٹ میں ہی چیلنج ہوسکتے تھے، الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی،علی ظفر
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کو ادراک ہے لیکن عدالت پر ایک بوجھ فیصلہ لکھنے کا بھی ہے جو وکیل پر نہیں ہے، علی ظفر نے کہا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزہ کی اجازت دیتے ہیں،انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا،آرٹیکل 17 دو تحت سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے،انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے،الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخاب کی چھان بین کا اختیار نہیں ، الیکشن کمیشن کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم نہیں کر سکتا،آئین کے تحت الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ، بنیادی سوال سیاسی جماعت اور اسکے ارکان ہے اس لئے شفاف ٹرائل کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں،الیکشن کمیشن عدالت نہیں جو شفاف ٹرائل کا حق دے سکے، الیکشن کمیشن میں کوئی ٹرائل ہوا ہی نہیں، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرپارٹی انتخابات چیلنج نہیں کیے، انٹراپارٹی انتخابات صرف سول کورٹ میں ہی چیلنج ہوسکتے تھے، الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے،الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کیساتھ جانبدارانہ اور بدنیتی پر مبنی سلوک کیا،

الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی،بیرسٹر علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے 2022 میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا،خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لئے عملدرآمد کیا،سپریم کورٹ اسی دوران آٹھ فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، دو دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے،الیکشن کمشین میں پارٹی انتخابات کیخلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا،جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا، الیکشن کمیشن کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی، الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کرینگے نہ ہی نشان دینگے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا،

آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی،جسٹس محمد علی مظہر
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں،کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں،اکبر بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن انکی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر بابر نے اگر استعفی دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرینگے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے، کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی،الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی، وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی،تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا،الیکشن کمیشن نے ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں، وہ عمومی نوعیت ہے ہیں،انتخابی نشان بنیادی حقوق کا معاملہ ہے،

آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباو ہے تو اس کو بھی ثابت کریں،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے،اگر ایوب کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے،پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنی، ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا،لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے،آج کی اور تب کی صورتحال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سے او کے تحت حلف اٹھایا تھا، آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں،آج کل ہر کوئی اسٹبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے،ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہئے ،میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں، آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباو ہے تو اس کو بھی ثابت کریں،جب پہلا شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تب آپکی حکومت تھی ، کیا تب بھی اسٹبلشمنٹ کا دباؤ تھا؟اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباو ڈالے گی؟عدالت آئینی اداروں کو کنٹرول تو نہیں کر سکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں تو بتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے،

اگر انتخابات باقاعدہ طریقے کار سے کرائے ہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے،چیف جسٹس
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے وہ پی ٹی آئی آئین سے ہی کی ہیں، وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈیول اور مقام پر کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں،اکبر بابر کو الیکشن لڑنے دیتے سپورٹ نہ ہوتی تو ہار جاتے، پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں،کل وہ باہر آ کر کہ دیں کہ یہ عہدیدار کون ہیں تو کیا ہوگا؟ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے آٹھ لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جو جن ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اسکی نشاندہی کر رہا ہوں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیاد نکتہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اگر وہ ہی نہ ہوا تو باقی چیزیں خود ختم ہو جائیں گی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر انتخابات باقاعدہ طریقے کار سے کرائے ہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے،انتخابات کی پیچیدگیوں میں نا جائیں، بس اتنا بتا دیں کہ کیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں تمام پارٹی اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں، الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں، وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی سکروٹنی کا اختیار نہیں ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے،

اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوادیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یا آپ تسلیم کر لیں جمہوریت چاہئے یا نہیں؟ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھر میں جمہوریت چاہیے باہر نہیں چاہیے، آپ کو سیاست چاہئے جمہوریت نہیں چاہئے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت،الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن مانے نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چودہ درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا ،وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو،وکیل علی ظفر نے کہا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن دو لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں، اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوادیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا،کل کو سرکار تمام امیدواروں کو بند کرے اور 326 بلامقابلہ جیت جائیں تو ہم کیوں مانیں، عقل اور دانست بھی کوئی چیز ہوتی ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دیدے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے،انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن دو لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی سٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی، وکیل علی ظفر نے کہا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے سابقہ سربراہ نے نہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پارٹی انتخابات کے وقت چیئرمین کون تھا؟ علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین عمران خان تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟ لولی لنگڑی جمہوریت نہیں پوری جمہوریت ہونی چاہیے،

علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں دکھائیں ریکارڈ سے وہ ممبر نہیں، علی ظفر نے کہا کہ میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن دو سال باقی تین سال بعد ہوں گے،یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی، وکیل علی ظفر نے کہا کہ میرا بیان یہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں،مجھے ہدایات یہی ملی ہیں وہ ممبر نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جنہوں نے خود دو سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہدایت دے رہے ہیں ؟برطانیہ میں جتنے وزراء اعظم آئے وہ ایک ہی جماعت کے لوگ تھے اور اپنی ہی جماعت سے ان کو مخالفت ہوئی،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کئے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذات نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانا ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس کے پاس لیپ ٹاپ ہے وہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کھولیں،

چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر کاغذاتِ نامزدگی چیک کرنے کا کہہ دیا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب الیکشن ہو گیا تو کاغذات نامزدگی ہٹا دئیے گئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں ہمارے تو انتخابات نہیں ہوتے،ہماری ویب سائٹ پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں تو موجود ہو گا، کچھ تو کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس کی یا کاغذات نامزدگی کا،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیس کیش میں وصول کی گئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کونسی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے،صرف کہنے سے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو جاتی ،آمریت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے،کسی بڑے کی ناجائز بات سنی جائے تو باہر سے جمہوریت اندر آمریت ہونے لگتی ہے، آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں،

اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا،جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے، لیکن یہاں نظر نہیں آ رہا،علی ظفر نے کہا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کیلئے 20 دن کا ٹائم دیا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ساڑھے تین سال پہلے کی بات ہے الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ الیکشن کروائیں ،آپ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ کرونا ہے ایک سال کا ٹائم دیا گیا،الیکشن کمیشن نے تو بہادری دیکھائی کہ حکومت میں نوٹس دیا،علی ظفر نے کہا کہ صرف ہمیں نہیں الیکشن کمیشن نے سب کو نوٹس بھیجا،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جو شیڈیول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا، اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کسی اور پارٹی کے انتخابات پر اعتراض نہیں آیا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن شیڈیول پر اعتراض کا جواب دوں گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈیول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بہادری دکھائی اور حکومتی جماعت کو شوکاز دیا، عدالت کی دلچسپی صرف جمہوریت میں ہے تکنیکی نکات میں نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات کالعدم قرار نہیں دے سکتا، علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات میں ٹربیونل کا کردار ادا نہیں کر سکتا، پارلیمان نے انٹراپارٹی انتخابات کا جائزہ لینے کا اختیار دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ آج نہیں بنا،پچھلے الیکشن بھی اسی قانون کے تحت ہوئے، آپ الیکشن کروا لیں،آپ کچھ دکھا نہیں پا رہے،کیا فیسوں کے پیسے جیب میں ڈال لئے یا گھر لے گئے،علی ظفر نے کہا کہ ہمارا ایک الیکشن چیئرمین کا ہوتا ہے دوسرا پینل الیکشن ہوتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیئرمین کا الیکشن دکھا دیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے خود اخباری تراشہ لگایا ہے اکبر ایس بابر کاغذات نامزدگی لینے پہنچ گئے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ان کی پچاس ہزار فیس جمع کرانے کا ثبوت کہاں ہے؛ علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر ہمارے پارٹی رکن نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ دکھا دیں کہ اکبر ایس بابر کو کیسے پارٹی سے نکالا گیا،

عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں، پھر گلہ نہ کیجیے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا،چیف جسٹس
علی ظفر نے کہا کہ قانون کے مطابق انٹرپارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دینا لازمی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں، سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے، پی ٹی آئی پارٹی انتخابات سے گھبرا کیوں رہی ہے؟ ہمیں کوئی دستاویزات دکھا دیں کہ انتخابات ہوئے ہیں، سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آ سکتا ہے، اگر پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا کہ فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں، پھر گلہ نہ کیجیے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ عمران خان نے کس کو چیئرمین نامزد کیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عمران خان کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ عمران خان کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے میڈیا پر اعلان کیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ عمران خان نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟ کل عمران خان کہہ دیں میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے ممبر ہیں،علی ظفر نے کہا کہ جی بالکل نیاز اللہ نیازی 2009 سے پی ٹی آئی کے ممبر ہیں، 29 نومبر کو فیڈرل الیکشن کمیشن کو نامزد کیا گیا،نیاز اللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دیکھیں ناں سب نئے نئے چہرے آ رہے ہیں، پرانے لوگ کہاں ہیں؟عمر ایوب کے پینل نے کاغذات یکم دسمبر کو جمع کروائے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پارٹی انتخابات میں اور کوئی پینل آیا،علی ظفر نے کہا کہ ایک ہی پینل تھا وہ جیت گیا،پینل میں 15 لوگ تھے جو منتخب ہوئے،پی ٹی آئی آئین کے مطابق کوئی اکیلا شخص الیکشن نہیں لڑسکتا پینل بنانا ضروری ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا یہ جمہوریت کیخلاف نہیں ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ ہونا تو ایسے ہی چاہیے لیکن پارٹی آئین میں یہی لکھا ہے،

،نیاز اللہ نیازی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ لگتا ہے پی ٹی آئی دستاویزات میں کافی کمزور ہے، جو بھی دستاویزات مانگتے ہیں وہ آپ کے پاس نہیں ہوتیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیاز اللہ نیازی کو بات کرنے سے روک دیا ،نیاز اللہ نیازی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا،نیازاللہ نیازی نے کہا کہ آپ نے میرے بیٹے کے لائسنس انٹرویو میں بھی پی ٹی آئی کے سوالات پوچھے تھے، آپ میری تذلیل کر رہے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے علم ہی نہیں کہ نیاز اللہ نیازی کا کوئی بیٹا بھی ہے،اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں کیا ہم نیاز اللہ نیازی جیسے کو نوٹس جاری کریں؟ علی ظفر نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا،

سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا گیا

پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا،علی ظفر
پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کیس کی وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو دلائل کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں، کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جہاں الیکشن ہوا کیا وہاں آپ کا دفتر ہے؟علی ظفر نے کہا کہ جس گرائونڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کےساتھ ہے،الیکشن کمیشن نے آئی جی پولیس کو پشاور میں سکیورٹی فراہمی کیلئے خط لکھا،اکبر ایس بابر جب تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹریٹ آئے تو اس وقت کاغذات نامزدگی کا وقت ختم ہوچکا تھا، اکبر ایس بابر کو آفس آنے دیا گیا،اکبر ایس بابر نے انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے کسی پینل کا اعلان نہیں کیا، اکبر ایس بابر نے کبھی بھی پینل کا اعلان نہیں کیا،اکبر ایس بابر انتخابات لڑنا چاہتے تو پینل کا اعلان کرتے، ہم تیار تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ لفظ پینل کا ذکر کہاں ہے؟ پارٹی آئین میں کہاں لکھا ہے الیکشن اکیلا شخص نہیں لڑ سکتا، علی ظفر نے کہا کہ پارٹی آئین میں پینل انتخابات کا ذکر ہے،چیف جسٹس نے کہا کہپی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں ایک بھی شخص نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا،عام انتخابات میں بھی ہوتا ہے کہ ہر شخص الیکشن لڑ سکتا ہے چاہے ووٹ نہ ملیں ،عام انتخابات میں بھی ہوتا کہ اتنی تعداد میں ووٹ ہوں ورنہ دوبارہ انتخابات ہونگے، پارٹی آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ہو ہی ووٹ کے زریعے ہو سکتا ہے، علی ظفر نے کہا کہ کوئی مدمقابل نہ ہو تو انتخاب بلامقابلہ تصور ہوگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارٹی آئین میں کہیں بلامقابلہ انتخاب کا نہیں لکھا،علی ظفر نے کہا کہ ووٹنگ ہوتی ہی تب ہے جب ایک سے زیادہ امیدوار ہوں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر چیئرمین کے واحد امیدوار کو ہی لوگ پسند نہ کرتے ہوں تو کیا ہوگا،اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، اگر ایک ووٹ بھی نہ ڈلے تو سینٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا، علی ظفر نے کہا کہ میں بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیئرمین، سیکرٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا آخر مسئلہ کیا تھا، پی ٹی آئی کی پوری باڈی بغیر مقابلے کے آئی،پی ٹی آئی میں لوگ الیکشن سے نہیں سلیکشن سے آئے،پی ٹی آئی نے مخالف جماعتوں کو خود تنقید کا موقع دیا ہے،

بڑی سیاسی جماعتوں میں کچھ لوگ بلامقابلہ منتخب ہوتے سب تو نہیں ایسے آجاتے،چیف جسٹس
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی اسلام آباد میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانا چاہتی تھی مگر کوئی جگہ دینے کو تیار نہیں تھاسیاسی جماعتوں میں بلامقابلہ سربراہان منتخب ہوتے ہیں،ن لیگ میں بھی نواز شریف،مریم نواز سمیت چھ لوگ بلامقابلہ سربراہ بنے،علی ظفر نے مسلم لیگ ن کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا ، اور کہا کہ ن لیگ میں بھی سب بلامقابلہ انتخابات ہوئے تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں، اس پر تبصرہ نہیں کرینگے، بڑی سیاسی جماعتوں میں کچھ لوگ بلامقابلہ منتخب ہوتے سب تو نہیں ایسے آجاتے،جو ہمارے سامنے نہیں ان کے بارے میں بات نا کریں،علی ظفر نے کہا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے،اے این پی کو آج جرمانہ کرکے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا ہے،

بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کرینگے،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتےملک چلانے والے کون ہوتے ہیں عوام کو پتا ہونا چاہیے، سیاسی جماعت کا تو نام ہوتا ہے وہ لوگ کون ہوتے جو ملک چلاتے ہیں،لوگ اعتراض کر سکتے کہ ملک غلط لوگوں کے حوالے کر دیا ہے،عوام کو کیسے پتا چلے گا کہ کون لوگ منتخب ہوئے،کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہونگے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ آپ اختلافی نکتہ نظر بھی سنتے ہیں جو اچھی بات ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیشہ پروفیشل انداز میں دلائل دیتے ہیں،بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کرینگے، آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہوسکتا ہے کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں،پی ٹی آئی انتخابات میں کسی نے ووٹ نہیں ڈالا،علی ظفر نے کہا کہ مدمقابل کوئی نہیں تھا اس لئے ووٹنگ نہیں ہوئی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کرونا کے دوران بھی انتخابات ہوسکتے تھے، اگر کوئی پینل نہ سامنے آتا تو ایسے ہی بلامقابلہ الیکشن ہوجاتے، علی ظفر نے کہا کہ ماضی کو واپس کیا جا سکتا تو ضرور کر دیتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 2021 میں انتخابی نشان واپس لینے کا خط لکھا تھا،پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو انہیں تجربہ ہوتا ہے،اکبر ایس بابر کی دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کے بارہ بانی ارکان تھے، پی ٹی آئی نے شاید بعد میں آئین بدل لیا، یہ تو ثابت ہوگیا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی ممبر تھے، اکبر بابر کو پارٹی سے نکالنے کی دستاویزات دکھا دیں، پی ٹی آئی پر کوئی باہر سے تو نہیں حملہ کر رہا ناں،چیئرمین بننے کا حق حامد خان کا زیادہ ہے یا بیرسٹر گوہر کا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کے جائزے کا کوئی اختیار نہیں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو فنڈنگ کا جائزہ لینے کا بھی اختیار نہیں؟علی ظفر نے کہا کہ فنڈنگ کا معاملہ مختلف ہے اس کی سکروٹنی الیکشن کمیشن کر سکتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سکروٹنی کا اختیار الیکشن کمیشن کو آئین نہیں قانون میں دیا گیا ہے،اس نکتے پر آپ کیوں نہیں کہتے کہ سول کورٹ کا اختیار ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ فنڈنگ کے ذرائع کے حوالے سے الیکشن ایکٹ بالکل واضح ہے،

دوران سماعت بیرسٹر گوہر نے عدالت میں کہا کہ میرے بیٹوں اور بھتیجوں کو مارا جا رہا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو بھی ہوا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ابھی خبر آئی ہے میرے گھر چار ڈالے گئے، میرے بھتیجے کو مارا ہے اور سارے کاغذات لے کر چلے گئے ،کوئی بات نہیں ہم اس کاروائی کو جاری رکھیں گے،بیرسٹر گوہر کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ چوہدری صاحب اس طرح ہوا ہے تو نہیں ہونا چاہیے ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں دیکھ لیتا ہوں ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل بھی جنرل کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے.

یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان بھی مل جائے،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن بار بار کہ رہا تھا الیکشن کرا لو، یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان بھی مل جائے، علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کروایا لیکن وہ مانتے ہی نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس وقت معاملہ حالیہ انتخابات کا ہے پرانا نہیں، وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان پی ٹی آئی کا بنیادی حق ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ الیکشن ہوجائے تو سرٹیفکیٹ اور انتخابی نشان بعد کی باتیں ہیں، بنیادی بات یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو اس کی روح سے کون محروم کر رہا ہے،علی ظفر نے کہا کہ آپ نے نااہلی فیصلے میں کہا کہ ایک بندے کو بھی انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا،یہاں تو ایک پوری جماعت کو محروم کیا جا رہا ہے،

چار ڈالوں میں لوگ میرے گھر آئے، کسی پر اعتماد نہیں ہے عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا،بیرسٹر گوہر
بیرسٹر گوہر علی خان روسٹرم پر دوبارہ آگئے ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کیا صورتحال ہے،بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بہت سیریس صورتحال ہے،حالات بہت سنگین ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ابھی معاملے کو طے کریں، بیرسٹر گوہر نے کہا کہ چار ڈالوں میں لوگ میرے گھر آئے، کسی پر اعتماد نہیں ہے عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی سے بات ہوئی ہے،سیکرٹری داخلہ اور آئی جی معلوم کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیرسٹر گوہر کو بات کرنے سے روک دیاکہا کہ پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتائیں اگر بات نہ سنی جائے تو عدالت کو آگاہ کریں،بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اب تو حد سے بھی تجاوز ہوگیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ایس ایچ او تو نہیں ہیں، بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بات نہیں کروں گا تو کہاں کروں گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ساتھ جائیں،ہم مقدمہ سن رہے ہیں،اگر مسئلہ حل نہیں کرتے تو ہم بیٹھیں ہیں،فی الحال ہم توجہ بانٹنا نہیں چاہتے،

بیرسٹر گوہر اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کمرہ عدالت نمبر 1 کے باہر مکالمہ ہوا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے اٹارنی جنرل سے بات کی ہے وہ آئی جی اور دیگر لوگوں کو فون کر رہے ہیں ، بیرسٹر گوہر نے گھر کی موبائل فوٹیجز ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو دیکھائیں، اور کہا کہ انہوں نے گھر پر مارا ہے کمپیوٹر سب کچھ اٹھا کر لے گئے ہیں ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل دوبارہ اٹارنی جنرل آفس کی طرف روانہ ہو گئے،

آئی جی اسلام آباد سپریم کورٹ پہنچ گئے،آئی جی اسلام آباد سپریم کورٹ میں پیش ہونگے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آئی جی سے رابطہ کیا تھا

ایسا نہیں ہونے دینگے کہ ایک جگہ سے سٹے نہ ملے تو دوسری ہائیکورٹ چلے جاؤ،چیف جسٹس
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر دو ہائی کورٹس بیک وقت کیس سننے کیلئے بااختیار ہوں تو کسی سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے،ایک ہائیکورٹ میں مقدمہ زیرالتواء ہو تو دوسری کو فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسا نہیں ہونے دینگے کہ ایک جگہ سے سٹے نہ ملے تو دوسری ہائیکورٹ چلے جاؤ،اگر کے پی کا صوبائی الیکشن ٹھیک نہ ہوتا تو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا بنتا تھا،وکیل علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہرالیکشن کمیشن کے حکم سے متاثرہ فریق ہیں، بیرسٹر گوہر کو پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ نام نہاد شکایت کنندگان بھی لاہور ہائیکورٹ میں فریق نہیں تھے،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ کے پاس دائرہ اختیار نہیں تھا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ کوئی زبردستی نہیں کر سکتا کہ کس عدالت سے رجوع کرنا ہے کس سے نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر لاہور ہائیکورٹ پی ٹی آئی کا سابقہ الیکشن درست قرار دیدے تو کیا ہوگا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ عمران خان دوبارہ چیئرمین بن جائیں تو ہم سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا، الیکشن کمیشن نے عمران خان کو ہٹانے کا نوٹس جاری کیا تھا اس وجہ سے چئیرمین تبدیل کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن چیئرمین کو ہٹا سکتا ہے؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس چیلنج کر رکھا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ عمران خان ازخود بحال ہوجائیں گے یا چیئرمین کا دوبارہ الیکشن ہوگا؟علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے مستعفی ہونے پر چیئرمین کا الیکشن دوبارہ ہوگا، الیکشن کمیشن نے 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کیے، ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا پارٹی انتخابات کیس میں مداخلت نہیں کر سکتے،

اسد عمر نے نو مئی واقعات کی وجہ سے پارٹی چھوڑی، سارے مسئلے آپ کی پارٹی کےساتھ کیوں ہو رہے ہیں؟چیف جسٹس
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ 2009 کا ہے، کیا اس وقت اور ان کے قانون میں فرق نہیں ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ قانون میں کوئی فرق نہیں آیا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے 2002 کے آرڈیننس کے تحت ہے،علی ظفر نے کہا کہ نئے قانون میں بھی دفعات وہی ہیں،ق لیگ میں بھی پارٹی انتخابات درست نہ ہونے کا سوال تھا،اسد عمر پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل تھے، اسد عمر کو اٹھا لیا گیا جس کے بعد انہوں نے پارٹی عہدہ چھوڑ دیا،اسد عمر کے مستعفی ہونے کے بعد ڈپٹی سیکرٹری جنرل عمر ایوب کو سیکرٹری جنرل بنایا گیا، اسد عمر نے پہلے عہدہ بعد میں پارٹی چھوڑی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسد عمر نے نو مئی واقعات کی وجہ سے پارٹی چھوڑی، سارے مسئلے آپ کی پارٹی کےساتھ کیوں ہو رہے ہیں؟ علی ظفر نے کہا کہ ایک بندے کو کاغذات نامزدگی نہ ملنے پر پارٹی کو الیکشن سے باہر نہیں کیا جا سکتا، الیکشن کمیشن نے ٹرائل کرنا ہے تو ہمیں شواہد پیش کرنے کا موقع بھی دیتا، کسی اور جماعت کیساتھ یہ رویہ نہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، اگر الیکشن نہ کراتے تو الیکشن کمیشن کا پوچھنا بنتا تھا،الیکشن کمیشن کو ٹربیونل بننے کا اختیار کہاں سے مل گیا،جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں مسئلہ ہو تو کہاں رجوع کیا جا سکتا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اپنا فیصلہ ہے کہ سول کورٹ سے رجوع کیا جائے، الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات نہیں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو غلط قرار دیا ہے، الیکشن کمیشن نے عہدیداران کے بلامقابلہ انتخاب پر اعتراض نہیں کیا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف نے انتخابات درست قرار دینے کی استدعا نہیں کی تھی، الیکشن درست ہو تو نشان کا مسئلہ خود حل ہو جائے گا، علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی،الیکشن کمیشن کا حکم ہی کالعدم ہوگیا تو سب کچھ ختم، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشان واپس لینے کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہے،آپ سوچ کر جواب دینا چاہیں تو مخدوم علی خان کے بعد دوبارہ سن لینگے،

سماعت میں آدھ گھنٹے کا وقفہ کر دیا گیا

سپریم کورٹ کا ابھی آئی جی اسلام آباد کو بیرسٹر گوہر کے گھر جا کر تحقیقات کا حکم
پی ٹی آئی انٹراپارٹی کیس کی وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی، تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے گھر ہم نے آئی جی کو بھیجا تھا،علی ظفر نے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آئی جی اسلام آباد عدالت میں موجود ہیں ؟آئی جی اسلام آباد سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہو گئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پولیس بیرسٹر گوہر کے گھر کیوں گئی تھی۔آئی جی نے کہا کہ پولیس کو اشتہاری ملزموں کی تلاش تھی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ کون کون سے اشتہاری تھے ؟ آئی جی نے کہا کہ مجھے اتنے کم وقت میں اس کا علم نہیں ہوا، ابھی مزید تحقیق کر رہے ہیں، مکمل معلومات نہیں ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا، اسے حل کریں، فوری بیرسٹر گوہر کے گھر جائیں،واقعہ کی تحقیقات کی تحریری رپورٹ جمع کروائیں،تحفظ ہر شہری کا حق ہے، معاملے کی تحقیقات کریں،حامد خان نے عدالت میں کہا کہ یہاں کسی کو کام نہیں کرنے دیا جاتا، پشاور میں انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی وجہ یہی تھی کہ اسلام آباد انتظامیہ اور پنجاب ہمارے کارکنوں کو ہراساں کررہی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لیں تو سرکار کو خط کیوں لکھ رہے ہیں کہ ہمیں سیکیورٹی دیں،چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کو گھر پر حملے کے متعلق درخواست دینے کی ہدایت کر دی۔

پی ٹی آئی کے رکن محمد مزمل بھی عدالت میں پیش ہوئے،اور کہا کہ 2016 سے پی ٹی آئی کا رکن اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے وائس پریذیڈنٹ تھا، انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے پی ٹی آئی سیکریٹریٹ گیا تو کہا گیا خان صاحب نے جن کو کہہ دیا وہی لڑیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خان صاحب سے آپ کی کوئی ناراضگی تھی؟ مزمل نے کہا کہ سچ بولو تو خان صاحب ناراض ہو جاتے ہیں، احمد حسن نے کہا کہ پارٹی بنی تو بلے کے نشان کیلئے عمران خان نے اکبر بابر کو الیکشن کمیشن سے رجوع کا کہا، اکبر بابر کو پارٹی کےخلاف بیانات پر شوکاز جاری کیا گیا تھا، اکبر بابر کو شوکاز نوٹس 2019 میں جاری کیا گیا تھا،اسلام آباد ہائیکورٹ قرار دے چکی ہے کہ اکبر بابر پی ٹی آئی کے ممبر ہیں، ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اکبر بابر کی رکنیت کا اعتراض اٹھایا گیا تھا،پارٹی انتخابات درست نہ ہوں تو انتخابی نشان نہیں مل سکتا،

پی ٹی آئی انتخابات کیخلاف درخواست گزار یوسف علی عدالت میں پیش ہوئے، یوسف علی نے کہا کہ بچپن سے تحریک انصاف میں ہوں، محمود خان پیش ہوئے اور کہا کہ قطر میں ہوتے ہوئے پی ٹی آئی 2006 میں جوائن کی،اسلام آباد کا کوآرڈینیٹر 2009 میں بنا تھا، الیکشن لڑنا چاہتا تھا لیکن طریقہ کار کا علم ہی نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کو آپ سے کیا مسئلہ ہے؟ محمود خان نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی سے پوچھیں میں تو جمہوری آدمی ہوں،

پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو شاید انٹرا پارٹی انتخابات کا سلسلہ ختم ہوجائے گا، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کہتی ہے الیکشن کمیشن دوہرا معیار اپنا رہا ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کل 13 سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اے این پی کو شاید لاء اینڈ آرڈر کی وجہ سے دس مئی تک وقت دیا ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اے این پی کے پانچ سال ابھی پورے نہیں ہوئے تھے، اے این پی کو مہلت پانچ سال کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہوسکتا ہے پشاور ہائی کورٹ کو لگا ہو کہ لاہور میں ایک ہی درخواست دائر ہوئی ہے،پشاور ہائی کورٹ کو تین درخواستیں زیرالتوا ہونے کا علم نہیں ہوگا،کیا پی ٹی آئی کو 2021 میں شوکاز نوٹس کسی شکایت پر دیا گیا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 2021 والا شوکاز کسی شکایت پر نہیں تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے آپ جمہوریت کے حوالے سے ہمیں کچھ بتائیں گے، پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو شاید انٹرا پارٹی انتخابات کا سلسلہ ختم ہوجائے گا،

واضح رہے کہ تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان ملنے کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے،الیکشن کمیشن نے اپنی اپیل میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے،الیکشن کمیشن کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن ایکٹ کے مطابق نہیں کرائے،

واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق 22 دسمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، بلے کا نشان بحال ہو گیا،پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور سید ارشد علی نے فیصلہ سنا دیا ۔پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کے نشان پر انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی۔پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کر لی

مجھے بلے کی آفر ہوئی میں نے انکار کر دیا

بلے کے نشان کے بعد پی ٹی آئی کا نام و نشان بھی ختم ہوجائےگا ۔

 پی ٹی آئی کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسکا اپنا کیا دھرا ہے ،

عمران خان نے تبدیلی کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا

الیکشن میں میں جہاں بھی ہوں گا وہاں جیت ہماری ہی ہوگی

 بانی پی ٹی آئی اب قصہ پارینہ بن چکے

عمران خان ملک میں الیکشن نہیں چاہتا ، وہ صدارتی نظام چاہتاہے 

Shares: