بات کچھ یوں ہے .تحریر:آمنہ فاطمہ

لفظ عورت کا مطلب "پوشیدہ” اور "چھپا کر رکھنے” کے ہیں زمانہ جاہلیت میں عورت کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں تھا یہاں تک کہ بیٹی کی پیدائش پر اسے زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا مگر اشاعت اسلام کے بعد عورت کو جو حقوق اور عزت ملی انہی کو استعمال کرتے ہوئے آج عورت مرد کے شانہ بشانہ معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے
اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق و حیات اور دین فطرت ہے جس کا ہر قانون کردار کی تشکیل کے ساتھ ساتھ افراد کی زندگی کو تحفظ اور روح و قلب کوسکون بھی فراہم کرتا ہے اسلامی قوانین مرد و زن دونوں پر مساوی نافذالعمل ہیں عورت کے لیے متعین کیے گئے احکام و قوانین میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ‘حجاب’ یعنی پردے کا حکم ہے اور قدرت کے ہر اصول میں حکمت پوشیدہ ہے جس کا فائدہ انسان کو ہی ہوتا ہے اسی طرح پردے کا حکم دراصل عورت کو تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ بنایاگیا
اسلام میں عورت کو گھر کی زینت قرار دیا گیا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنی قیمتی چیز کو چھپا کر اور سنبھال کر رکھتا ہے نہ کہ اسکی نمائش کرتا ہے اسلام عورت کو بننے سنورنے پر روکتا نہیں بلکہ پردے اور حدود میں رہ کر سب کچھ کرنے کی اجازت دیتا ہے عورت کا حقیقی زیور شرم و حیا ہی تو ہے جسے زیب تن رکھنے کی اشد ضرورت ہے
آج کے ماڈرن دور میں عورت بالخصوص مسلمان عورت کو مغربی فتنے سے بچ کر رہنے کی ضرورت ہے ‘فیمینزم’ کےنام پر مغربی لباس پہننا مغربی اقدار کو اپنانا میرے معاشرے میں ایک ٹرینڈ بنتا جا رہا ہے جسکی روک تھام بہت ضروری ہے اس معاشرے میں جب بھی عورت کے کردار پر بات ہوئی تو تو سب سے پہلے اسکے حجاب اور لباس پر تنقید شروع ہوئی کیونکہ جب مسلمان عورت نیم عریاں لباس پہن کر چادر تو دور دوپٹہ تک اوڑھنا مناسب نا سمجھے اور باہر پبلک پلیسز پر نکلے گی تو وہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنے گی کیا آج کی مسلمان خواتین بھلا چکی ہیں خاتونِ جنت حضرت فاطمہ س اور خاندان مصطفی حضرت محمد ص کی باقی تمام پاک بیبیوں کی تعلیمات کو اور جن کے صدقے میں عورت کے قدموں تلے جنت کو قرار دیا گیا یا پھر اس عارضی دنیا کی رنگینیوں میں کہیں گم ہو کر رہ چکی ہیں
مجھے پیار آتا ہے ان بہنوں پر جو آج بھی ایمان کے درجے پر ڈٹی ہوئی ہیں چاہے پھر وہ نقاب ہے, حجاب ہے یا چادر اوڑھنا ہے اور چاہے پھر وہ پاکستان میں رہ رہی ہیں یا مغرب میں جو آج بھی اپنے باپ اور بھائی کے سامنے چادر لئے بغیر نہیں جاتیں ماڈرن بنیں مگر ان شعبوں میں جن سے ملک و قوم ترقی کرے معاشرے کے دیگر افراد کو گناہ اور گمراہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ عورت اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے بناؤ سنگھار کرے اور اپنی نسل کی بہترین تربیت کرے اور اسکے لئے پہلے اسے خود کو مثال بننا ہوگا کیونکہ ایک ماں ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے

Comments are closed.