برطانوی اخبار نے لبنان کے ساتھ ساتھ "حزب اللہ ” کی حالت کو بھی ابتر قرار دے دیا
باغی ٹی وی :لبنان میںسیاسی تبدیلیاں تیزی سے جاری ہیں. بیروت کی بندرگاہ پر 4 اگست کو ہونے والے دھماکے سے قبل لبنانیوں کے ذہنوں میں جس واقعے نے خوف اور دہشت کا تصور بٹھا رکھا تھا وہ 14 فروری 2005ء کو سابق وزیر اعظم رفیق حریری کی سواری میں ہونے والا دھماکا تھا۔ یہ بات برطانوی صحافی ڈیوڈ گارڈنر نے Financial Times اخبار میں شائع اپنے مضمون میں کہی۔
تقریبا 15 سال قبل دو ٹن کے قریب شدید دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی رفیق حریری کے قافلے سے جا ٹکرائی۔ اس کے نتیجے میں سقابق وزیر اعظم اور 21 دیگر افراد ہلاک ہو گئے۔العربیہ کے مطابق اس کے بعد بیروت میں احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس دوران الزمات کی انگلیاں شام کی جانب بھی اٹھیں جس کا 1975ء سے 1990ء تک لبنان پر کنٹرول رہا۔ اس عرصے میں دمشق حکومت نے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے منظم کارروائیاں کیں۔
مضمون میں مزید کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والی ابتدائی تحقیقات میں ایک "ممکنہ سبب” کی بنیاد پر کہا گیا کہ ہلاکت کی یہ کارروائی شام کے سینئر سیکورٹی ذمے داران کی موافقت اور لبنانی سیکورٹی اداروں میں انے ہم منصبوں سے ساز باز کے بغیر ممکن نہ تھی۔
واضحرہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ٹریبونل کی جانب سے لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے ایک رکن کو رفیق حریری قتل کیس میں مجرم قرار دیے جانے کا خیر مقدم کرتا ہے۔ لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری 2005ء میں بیروت میں ہونے والے ایک دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔
امریکی وزارت خارجہ کے مطابق حزب اللہ کے رکن سلیم عیاش کو اس قتل کے جرم میں قصور وار ٹھہرایا جانا اس بات کی تصدیق ہے کہ حزب اللہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ دنیا نے اس بات کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کا دفاع نہیں کر رہی بلکہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے
لبنان مظاہروں میں دہشت گرد دہشت گرد حزب اللہ دہشت گرد کے نعرے