بے حیا ہمارا معاشرہ اور زمانہ جاہلیت تحریر : فیصل اسلم

اگر ہم تاریخ کا مطالع کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کے زمانہ جاہلیت یعنی نبی پاک ﷺ کی ولادت مبارکہ سے پہلے کے زمانے میں عربوں میں بے حیائی اور بے شرمی عام تھی مرد و عورت کے ناچ گانے سے محظوظ ہونا یہ سب اس وقت بھی عام تھا ۔
عرب کے بڑے بڑے شعرا عورتوں کے نازیبا حرکتوں اور اداوں کا ذکر اپنی شاعری میں فخریہ کرتے تھے اور اسی طرح بعض لوگ باپ کے مرنے پر معاذاللّه باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیتے ۔ان کے علاوہ بھی بے شرمی و بے حیائی کی رسمیں ان میں عام تھیں الغرض جاہلیت کے معاشرے کا شرم و حیا سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا ۔
لیکن جب ہمارے پیارے رسول ﷺ دنیا کو اپنی نورانی تعلیمات سے منور کرنے تشریف لائے تو آپ نے اپنی نگاہ حیا دار سے ایسا ماحول بنایا کے ہر طرف شرم و حیا کی روشنی پھیلنے لگی جناب عثمان رضی اللّه عنہ جیسے لوگ پیدا ہونے لگے جن کے بارے میں خود نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کے عثمان سے تو آسماں کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں
اور اسی باحیاپرور ماحول کا نتیجہ تھا کے جب حضرت ام خلاد نامی صحابیہ کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا تو یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات لینے باہر نکلیں تو اس وقت بھی اپنے چہرے پر نقاب ڈالنا نہیں بھولیں
چہرے پر نقاب ڈال کے جب بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا اس وقت بھی با پردہ تو بی بی ام خلاد کہنے لگیں کے میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے لیکن اپنی حیا نہیں کھوئی وہ اب بھی باقی ہے
معلوم ہوا کے نبی پاکﷺ نے اپنے ماننے والوں پر شرم و حیا پر مبنی زبردست ماحول بنایا اور آج ہم دیکھتے ہیں کے شرم و حیا کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ لوگ جو شرمیلے ہوں فطرتی طور پر ان میں شرمیلا پن زیادہ ہو اور وہ اسکا اظہار کریں تو انکو طرح طرح کے طعنے دیے جاتے ہیں ایسوں کو یاد رکھنا چاہیے کے شرم و حیا ایک ایسی صفت ہے جو جتنی زیادہ ہو اتنا ہی خیر میں اضافہ ہوتا ہے اسلئے رسول پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کےحیا صرف خیر ہی لاتی ہے

اور ہمارے معاشرے میں گردش آیام یا شامت اعمال نے جس طرح آج مسلمانوں کو جس خطرناک موڑ پر لاکر کھڑا کردیا ہے وہ کون سی آنکھ ہوگی جو ہماری زبوں حالی اور ذلّت و رسوائی پر آنسو نہ بہاتی ہو مسلمانوں کی ذلّت و رسوائی ، خوارگی ، بدنامی ، بے عزتی و محرومی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کیا کل بھی مسلمانوں کے احوال و کوائف یہی تھے جو آج ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں
انگریزی تہذیب ایک فتنا بار گھٹا بن کر افق عالم پر چھائی ہوئی ہے اور اکثر ممالک میں یورپی تہذیب ایک فتنہ اجتماعی و معاشرتی مفاسد و شرور کی آگ لگی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے کے یہ شرور وفتن کی لو پوری دنیا کو اپنے لپٹ میں لے لے گی اس میں شک نہیں کے ہمارا معاشرہ بری طرح بے حیائی کی لپٹ میں آچکا ہے فحاشی و عریانی کی تندو تیز ہوائیں شرم و حیا کی چادر کو تار تار کر رہی ہیں دور جدید کی خرافات نے غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے اس نام نہاد ترقی نے بے حیائی کو فیشن کا نام دے کر میڈیا کے ذریعے گھر گھر لا دیا ہے مغرب سے بے حیائی کی آنے والی آندھی تہذیب شرم و حیا کو ختم کرنے کے درپے ہے یہی وجہ ہے کے مسلم معاشرے میں بے حیائی و فحاشی کا چلن عام ہو رہا ہے
اسکی بنیادی وجہ علم دین سے دوری ہے
آج تفریح گاہوں میں بے حیائی کے مناظر عام ہو رہے ہیں اور مزید بڑھ رہے ہیں آج خواتین کی ایک تعداد ہے جو شرم و حیا کی چادر کو گھر میں رکھ کر بازاروں میں بے حیائی و بے شرمی کو فروغ دیتے ہوئے نظر آتیں ہیں اور پھر وہ مرد حضرات جنکی آنکھوں سے شرم و حیا کا سرمہ اڑچکا ہے وہ ایسیوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے نظر آتے ہیں پہلے تو فلم و ڈراموں کے حیا سوز منظر ٹی وی اور سینماؤں کی سکرینوں پر ہوتی تھی لیکن آج موبائل کی سہولت نے ان تک ہر کسی کی رسائی ممکن بنا دی ہے آج اجنبیہ اجنبی کے ساتھ اکیلی ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی حلانکے یہ حرام ہے
آج اجنبی اور اجنبیہ باہم ملاقات کرتے ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اور مسکراتے نظر آتے ہیں آج شرعی پردے کو پورانے دور کی رواج میں شمار کیا جاتا ہے آج مسلمان عورت بینا پردے و حجاب کے بن سنور کے باہر باہر گھومنے میں فخر محسوس کرتی ہیں
مرد و عورت دونوں نے اسلامی تعلیمات و شرم و حیا کو بھولا دیا ہے ہمارے اسلاف کیسے ہوتے تھے اسکی ایک مثال یہ ہے کے ایک زمانے کے مشہور اللّه کے ولی حضرت یونس بن یوسف جوان تھے اکثر مسجد میں وقت گزارا کرتے تھے ایک بار جب آپ مسجد سے گھر جا رہے تھے تو راستے میں آپکی نظر اچانک ایک عورت پر پڑی اور دل اس کی طرف مائل ہونے لگا پھر آپ نے شرمندہ ہو کر نظریں نیچی کرلیں اور پھر رب کی بارگاہ میں یہ دعا کی یا رب بے شک یہ آنکھیں جو تو نے دی بہت بڑی نعمت ہیں لیکن اب ان سے مجھے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کے کہیں میں انکی وجہ سے ہلاکت میں نہ پڑ جاؤں اور عذاب میں مبتلا نہ ہوجاؤں اے اللّه میری ان آنکھوں کی بینائی سلب کرلے پھر انکی دعا قبول ہوئی اور وہ بھری جوانی نابینا ہوگئے
بے شک یہ ان بڑی ہستیوں کا کمال ہی ہے لیکن ہم بطور مسلمان اپنی نظروں کو ان کاموں سے روکیں جن سے بے شرمی و بے حیائی کا خطرہ محسوس ہو
اس میں کوئی شک نہیں کے شرم و حیا ایک ایسا مضبوط حصار ہے جو ذلّت و رسوائی کے تمام کاموں سے بچاتا ہے اور جب کوئی شخص اس شرم و حیا کے دائرے کو توڑنے کی صرف کوشش بھی کرتا ہے تو مسلسل بے شرمی و بے حیائی و فحاشی کے کاموں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے یوں تو انسان میں بہت سی عادتیں اور اوصاف پاۓ جاتے ہیں لیکن شرم و حیا ایک ایسا وصف ہے کے اگر لب و لہجے و عادات و حرکات و اطوار سے یہ پاکیزہ وصف ختم ہوجاے تو تو بہت سی اچھی عادتوں اور بہت سے عمدہ اوصاف پر پانی پھر جاتا ہے دیگر نیک اوصاف شرم و حیا کا وصف ختم ہونے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور ایسے خواتین و مرد دوسروں کے نظروں سے گر جاتے ہیں
یاد رکھیں دکھ سکھ۔ خوشی غمی ۔ غصے اور شفقت سمیت بہت سے اور اوصاف جانوروں میں بھی پاۓ جاتے ہیں جبکے شرم و حیا ایک ایسی صفت ہے جو صرف انسانوں میں پائی جاتی ہے یہ جانوروں میں نہیں ہوتی تو انسان و جانور میں فرق شرم و حیا کے ذریعے ہی ہوتا ہے لہٰذا اگر کسی انسان میں سے شرم و حیا جاتی رہے تو اب اس میں اور جانور میں کچھ خاص فرق نہیں رہ جاتا اسلئے ہمارے دین نے شرم و حیا اپنانے کی بہت ترغیب دلائی ہے
نبی و آخری رسول ﷺ کے کچھ ارشادات حیا ممتعلق درج ذیل ہے
1)آپ ﷺ نے فرمایا
بیشک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں تو جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بگی اٹھا لیا جاتا ہے
2) آپﷺ نے فرمایا
بیشک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے
3)آپﷺ نے ارشاد فرمایا
بے حیائی جس چیز میں ہو اسکو عیب دار کردیتی ہے اور ہی جس چیز میں ہو اسکو زینت بخشتی ہے
اللّه پاک ہمارے معاشرے سے بے حیائی و بےشرمی و فحاشی کی نحوست کو ختم فرما دے امین

گناہوں سے بھرپور نامہ ہے میرا
مجھے بخش دے کر کرم یا الہی

@FsAslm7

Comments are closed.