بے روز گاری تحریر:اعجاز حسین

‏”
بے روزگاری کو عام طور پر اس صورتحال سے تعبیر کیا جاتا ہے جب افراد ایک مخصوص عمر سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر رہے اور ملازمت نہیں رکھتے۔
بے روز گاری ایک عالمی مسٸلہ ہے۔ایشیاٸی ممالک میں بے روزگاری زیادہ ہے۔جس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔بے روزگاری ایک سماجی براٸی تصورکی جاتی ہے جس سے خطرناک حالات جنم لیتے ہیں۔یہ معاشی زہر ساری سوساٸٹی میں پھیل جاتا ہے۔ اور ملک کی سیاسی صورتحال بھی متاثرہوتی ہے۔
بیروزگاری قانون کا احترام کرنے والے اچھے شہریوں کو بھی مجرم بنا دیتی ہے ۔اس سے بد عنوانی پھیلتی ہے جھوٹ بڑھتا ہے۔اور انسانی کردار کا تاریک پہلو سامنے آ جاتا ہے ۔بیروزگار آدمی سے سچاٸی، شرافت ، اور امانت داری کی توقع کرنا ناممکن ہے۔
غربت اور بیروزگاری ریاست کی سب سے بڑی کمزوری اور نااہلی مانی جاتی ہے۔بیروزگاری سے بے اطمینانی اور بے چینی پھیلتی ہے۔بےاطمینانی سےسیاسی بے چینی اور حکومت کی اطاعت سے انحراف کے جذبات ابھرتے ہیں۔سیاسی نفرت سے بغاوت جنم لیتی ہے۔اور پھر بغاوت انقلاب کی صورت نمودار ہوتی ہے۔
حکومت کیلیے لازم ہے کہ بیروزگاری کے لیے مٶثر اقدامات کرے۔تاکہ لوگ اپنےکاموں میں مصروف رہیں اور معاشرے میں بے چینی نہ پھیلے۔
”برطانوی فلاسفر سر ڈبلیو بیورٸج کا تجزیہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ بیروز گار افراد کو زمین پر گڑھےکھودنے پرلگاۓ رکھے اور پھر انھیں پُر کرانے پر مامور رکھے ۔یہ زیادہ مٶثر قدم ہے نہ کہ بیروزگاری کے مہلک اثرات حکومت پر حاوی ہوں۔
سرکاری محکموں اور پراٸیویٹ اداروں نے اخبارات کے ذریعے آسامیاں پُر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے مختلف آسامیوں کے لیے امید وار بلاۓ جاتے ہیں۔سرکاری ملازمتوں کیلیے پہلے ہی گٹھ جوڑ کر لیا جاتا ہے۔آسامیوں کی تشہیر ایک عام دفتری کارواٸی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ پراٸیویٹ ادارے مجبوراً امیدواروں کو کم تنخواہ پر رکھ لیتے ہیں۔ جہاں سے انہیں کسی وقت بھی ملازمت سے ہٹا دیا جاتا ہے۔یہ ادارے لیبر قوانین کی پرواہ تک نہیں کرتے۔طویل دورانٸے کے اوقات میں کام لیتے ہیں۔
اب سرکاری دفتروں میں آسامیاں پُر کرنے کے لیے ”سفارشی“ اور ”رشوتی“ افراد ہی ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔ بیروزگاری کا مسٸلہ بڑی سنجیدہ صورت اختیار کر چکا ہے۔تعلیم یافتہ ،غیر تعلیم یافتہ،ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد سب متاثر ہیں۔ ملک میں ہزاروں کی تعداد میں میٹرک،انٹرمیڈیٹ، اور گریجویٹ افراد ملازمتوں سے محروم ہیں۔دفاتر کے چکر لگاتے ہیں لیکن ملازمت کیلیے کوٸی آسامی دستیاب نہیں ہوتی۔
دوسرا مرحلہ صنعتی بیروزگاری کا بھی ہے ۔انڈسٹری پر بھاری ٹیکس لگانے سے اب صنعت کاروں نے جدید مشینیں لگا لی ہیں جہاں بہت کم تعداد میں ملازم رکھ کر زیادہ مقدار میں پروڈکشن حاصل کی جاتی ہے ۔آۓ دن ہڑتالوں اور فیکٹریوں کی تالا بندی سے تجارت اور کامرس پر بھی برے اثرات مرتب ہوۓ ہیں۔ ہڑتالوں کیوجہ سیاسی اور لسانی فسادات ہیں ۔سیاسی لیڈر اپنی دکانیں چمکانے کیلیے ناممکن مطالبات کرتے ہیں۔جس سے ملک میں لوٹ مار کے واقعات جنم لیتے ہیں۔ان حالات میں صنعت بہت متاثر ہوٸی ہے۔غیر ملکی سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے سے گریز کر رہے ہیں ۔ملک مالی بحران کا شکار ہو گیا ہے۔
ساری دنیا آج کرونا کی وبا سے متاثر ہوٸی ہے وہیں ملازمت پیشہ اور خاص کر مزدور طبقہ بہت متاثر ہوا ہے ۔ملک مزید لاک ڈاٶن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
نوجوان نسل ڈگریاں لیکر بیکار رہنے کی وجہ سے ذہنی خلفشار کا شکار ہے ۔جس سے معاشرہ بہت سے مساٸل کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔
بے روزگاری ایک ایسا عفریت ہے جس سے دور جدید کی تمام قومیں پناہ مانگتی ہیں۔ امریکہ کے عوام کی نظر میں آج بھی سب سے خطرناک معاشی بحران بیروزگاری ہی ہے۔
جب تک دنیا کی حکومتوں نے ملکی معاشی نظام کو اپنی گرفت میں نہیں لیا تھا تب تک بیروزگاری کسی حد تک انفرادی مسٸلہ تھی ۔مگر موجودہ صورت حال میں جب ملک کے تمام وساٸل حکومت کے ماتحت ہیں بیروزگاری اور افراطِ زر دونوں ہی حکومت کی پالیسیوں کے تحت بڑھتے اور گھٹتے ہیں۔گو انفرادی طور پر کسی شخص کے روزگار حاصل کرنے کی صلاحیت اسکی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہوتی ہے مگر روزگار کے مواقع معیشت کے پھلنے پھولنے سے ہی پیدا ہوتےہیں۔ جس کا زیادہ تر انحصار حکومت کی صحیح پالیسیوں پر ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مناسب تربیت اور تعلیم کے باوجود ہمارے ہاں بیشمار افراد کو روزگار نہیں مل پاتا۔
کہنے کوتو پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے پر ہم آخر اسکو کس نظر سے فلاحی ریاست کہتے ہیں اور کس بنیاد پر اسکو فلاحی ریاست ہونے کا درجہ دے رہے ہیں۔اسلام کے نام پر اس ملک کو بنایا گیا لیکن آج یہ حالات ہو گٸے ہیں ہر طاقتور اپنے سے کمزور کے حقوق سلب کر رہا ہے اور فراٸض کی پاسداری نہ کرتے ہوۓ ملک کو تباہی کیطرف دھکیل رہا ہے۔آخر اس سب کیوجہ کیا ہے ؟
ہم لوگ نفسیات کے کس درجے پر آ گٸے ہیں۔اگر ان سب مساٸل کا جاٸزہ لیا جاۓ تو وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے بیروزگاری۔
آج جسطرف بھی نظر ڈالی جاۓ ہر تیسرا پڑھا لکھا شخص روزگار کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ اس دوران بہت بار اسکا واسطہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی چیزوں سے پڑتا ہے۔ہر ایک اس دوڑ میں شامل ہو چکا ہے اور اگر کوٸی کچلا جاۓ تو کسی کے پاس دوسرے کو اٹھانے کی فرصت نہیں ہے۔اورحالات کو بہتر کرنے کیلیے حکومتی سطح پر بھی کوٸی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔روزگار نہ ملنے پر سب سے زیادہ نقصان ان نوجوانوں کا ہوتا ہے جنہوں نے اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اور اپنی تعلیم پر انھوں نے لاکھوں روپے صَرف کیے ہوتے ہیں اور جب اتنی تعلیم حاصل کرنے اور میرٹ پر آنے کے باوجود بھی وہ ملازمت نہیں حاصل کر پاتے تو وہ ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔
حکومت کو نجی تعاون سے روزگار کے مواقع بڑھانے پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ہمارے سیاستدان جلسوں میں تو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں روزگار دینے کے۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب بھول جاتے ہیں۔اگر وہ غریب لوگوں پر تھوڑی سی توجہ دیں اور انکو بھی روزگار فراہم کیا جاۓ تو یہ لوگ برے اور غیر قانونی کاموں میں پڑنے کی بجاۓ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرینگے۔
ہماری نوجوان نسل بیروزگاری کیوجہ سے تباہ ہو رہی ہے انکی صلاحیتوں کو ایسے حالات میں زنگ لگنا لازم ہے جب ان کے پاس اپنی صلاحیتوں کو بروۓ کار لانے کے مواقع نہیں ہیں۔

@Ra_jo5

Comments are closed.