بی بی سی نے ایسی کون سی رپورٹ شائع کی کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا، اہم خبر آ گئی

0
50

پاک فوج کے شعبہ تعلقات کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی 2 جون کی خبر کو صحافتی اقدار کے منافی قرار دیا ہے.

باغی ٹی وی کی رپورٹ‌ کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ بی بی سی کی رپورٹ میں‌ پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‌ سے متعلق الزامات بے بنیاد ہیں. ان کا کہنا تھا کہ صحافتی اقدار کے منافی خبر شائع کرنے پر انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے. بی بی سی کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درحقیقت یہ پاکستان مخالف ایجنڈے کا تسلسل ہے جس میں خود ساختہ اور غیر تصدیق شدہ رپورٹ کی مدد سے پاکستان اور اس کے اداروں کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں حقائق کو جاننا نہایت ضروری ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں جس تاریخ کا ذکر کیا گیا ہے اس وقت شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہی نہیں کیا گیا تھا لیکن دہشت گردوں نے ریاستی رٹ کو چیلنج کر رکھا تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بی بی سی کی رپورٹ میں مصدقہ اور قابل بھروسہ ذرائع سے معلومات نہیں لی گئیں۔

آئی ایس پی آر کے اعلامیے میں کہا گیا کہ بی بی سی کی رپورٹ میں جن ذرائع کا انٹرویو کیا گیا انہوں نے صرف چھتوں کے گرنے کی بات کی مگر کسی فضائی حملے کا ذکر نہیں کیا۔ مسائل کو تعلق جنوبی وزیرستان سے جوڑا گیا ہے جب کہ زیادہ تر سماجی کارکن شمالی وزیرستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی بی سی نے خاڑکمر چیک پوسٹ پر حملے کا ذکر کرتے ہوئے حملہ آوروں کو مخصوص گروہ کے سماجی کارکن قرار دیا ہے جب کہ محسن داوڑ نے خاص طور پر کہا ہے کہ اس کا کسی سماجی تنظیم کی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بی بی سی نے خاڑ کمر چیک پوسٹ پر پاکستانی حکومت کے مؤقف کو بھی نظر انداز کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جھوٹی اور خودساختہ رپورٹ پر بی بی سی حکام کے بات چیت جاری ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ میں نامعلوم ذرائع اور ایسے افراد سے حاصل کیے گئے یک طرفہ حقائق بیان کیے گئے ہیں جن کی تصدیق کے لیے فوج کے کسی ترجمان سے رابطہ نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے اس طرح بی بی سی جیسے ادارے کے خلاف اس طرح‌ کا سخت ردعمل ظاہر کیا گیا ہے. واضح رہے کہ بی بی سی کی جانب سے اس سے قبل بھی پاکستان کے خلاف حقائق کے منافی رپورٹیں‌ شائع اور نشر کی جاتی رہی ہیں.

Leave a reply