بے لوث سلسلہ — ریاض علی خٹک

0
33

دوستو جس دن میں صبح جلدی آفس آتا ہوں ایک منظر بڑی پابندی سے دیکھتا ہوں. یہ کوئی سفید ریش بڑے میاں ہیں جو غالباً کسی فیکٹری میں چوکیدار ہیں. آوارہ کتوں کی ان سے محبت دیدنی ہوتی ہے. اس راستے پر سینکڑوں لوگ گزر رہے ہوتے ہیں نہ وہ ان آوارہ کتوں کو نوٹس کرتے ہیں نہ کتے ان کو درخور اعتنا سمجھتے ہیں.

لیکن جیسے ہی یہ بزرگ چوکیدار ایک شاپر لئے فٹ پاتھ پر نمودار ہوتے ہیں آس پاس دور دور سے آوارہ کتے ان کی طرف ایسے لپکتے ہیں جیسے غریب بچوں کا باپ شام کوئی شاپر لے کر گھر میں داخل ہوتا ہے. بچے ہنسنا رونا جھگڑنا کھیلنا چھوڑ کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں. یہ چوکیدار پھر ان کے سامنے کھانا ڈالتا ہے.

مجھے یہ منظر اچھا لگتا ہے. مجھے کتوں سے سچی بات ہے بہت ڈر لگتا ہے. میں جب اس چوکیدار کو دیکھتا ہوں جس سے یہ آوارہ کتے لاڈ و نیاز کرتے ہیں تو ایک عجیب سا رشک اس پر آتا ہے. میں سوچتا ہوں ان سرد راتوں میں یہ آوارہ کتے اس صبح اور اس مہربان شخصیت کا کتنا انتظار کرتے ہوں گے.

قدرت کو بھی یہ پسند آتا ہے. کیونکہ ایسے سلسلے پھر جاری رہتے ہیں. بے لوث انتظار جس میں ایک خاموش تشکر کے سوا کچھ نہ ہو کوئی بدلہ کوئی حساب نہ ہو ایسے حساب پھر قدرت اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے. کیا آپ نے بھی ایسا کوئی خاموش بے لوث سلسلہ قدرت کے ساتھ جوڑ رکھا ہے.؟ کیا آپ کا بھی کہیں خاموش انتظار ہو رہا ہوتا ہے.؟

Leave a reply