بیٹی رحمت یا زحمت تحریر: نزاکت شاہ

0
110

کیا بیٹی کبھی رحمت بھی تھی ؟ جی ہاں! لیکن اسکو سمجھنے کیلئے ہمیں 1500سال قبل عرب کی بدلتی تقدیر کے سنہرے ابواب کا مطالعہ کرنا ہوگا۔جب جہالت و فسادات پر مبنی تہذیب و روایات کی گرد نے معاشرے کو بری طرح اٹ دیا تھا۔عرب وعجم کے مسیحا نے اس معاشرے کی گرد کو صاف کرتے ہوئے، معاشرے کے اہم جز،نوع انسانی کا فخر و سرمایہ،نازک مزاج،گراز طبیعت اور نرم طینت کو اعزاز سے نوازتے ہوئے فرمایا:جس نے دو لڑکیوں کو ان کے بالغ ہونے تک پالا،قیامت کے دن میں اور وہ ( آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کرتے ہوئے بتایا) ان دو انگلیوں کی طرح اکھٹے ہونگے۔
درحقیقت یہ اشارہ بیٹی کے سر تا پا رحمت ہونے سے کنایہ تھا ۔جس کی پرورش پر اپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قربت کی نوید سنائی۔بالآخر بیٹی نے نمونہ رحمت پیش کیا۔جب اپ صلی اللہُ علیہ وسلم کے پائے مبارک میں کافروں کے بچھائے ہوئے کانٹے چبھ جاتے تو اپنی ننھی انگلیوں سے کانٹے چنتی جاتی اور سسکیاں بھرتی جاتی۔
یہ بھی ہوتا جب کفر کے غرور میں مبتلا کفار مکہ اپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر آلودگی پھینکتے۔اپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم گھر واپس تشریف لاتے یہ اپنے ننھے ہاتھوں سے اسے صاف کرتی ۔پقنی سے سر مبارک دھوتی اور روتی جاتی۔
آج بھی اگر دیکھا جائے ،بیٹی کو جس قدر محبت والد، والدہ اور بہن بھائیوں سے ہوتی ہے بیٹے کو نہیں ہوتی۔دوسری طرف تاریخ اسلام سے قبل کی روایات(جن کو عورت کو خاص کر بحثیت بیٹی، پاپ سمجھا جاتا تھا) اور عصر حاضر میں یگانگت کا ناسور آئے دن کینسر کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے ۔جسے گرد ونواح کے ماحول میں ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ دعاؤں اور التجاؤں میں نرینہ اولاد کو اس قدر فوقیت دی جانے لگی ہے کی شاید بیٹی اولاد کے مفہوم سے خارج ہے ۔
بیٹے کی پیدائش پر اگے بڑھ بڑھ کر مبارک باد دی اور لی جاتی جاتی ہے۔شادیانے بجائے جاتے ہیں ۔جبکہ بیٹی کی پیدائش پر سوگ کا منظر دکھائی دیتا ہے ۔اسکی ایک وجہ شاید ہماری غیروں سے مستعار لی ہوئی وہ روایات ہیں جن پر عمل کرنا ہم مزہبی فریضہ سمجھتے ہیں ۔پھر اسے پورا کرنے میں درست ونادرست،جائز وناجائز اور حلال حرام کی پرواہ کئے بغیر،اپنی وسعت سے زیادہ کوشش خرچ کرتے ہیں ۔اسی لئے بیٹی کو بیاہ کر رخصت کرنا بہت بڑے محاذ کو سر کرنے سے کم نہیں رہا ۔
ابتداء سے انتہا تک، رسوم اور ان پر ہونے والے اخراجات کی لمبی فہرست ہے۔منگنی ہو یا مہندی، نکاح ہو یا ولیمہ،ہر مرحلے سے گزرنا کسی پل صراط سے کم نہیں ۔پھر بیٹی کی شادی اور بھی دشوار ہے کیونکہ اج بیٹی کو بیاہنے پر جس قدر خرچ ہوتا ہے ۔اس سے تین بیٹوں کے وسائل مہیا ہو سکتے ہیں ۔
جب ایسا ہی ہے اور اسے ہم نے معاشرے، تعلق داروں اور رسم ورواج سے مرعوب ہو کر اپنی زندگی کا اہم جز بنا رکھا ہے ،تب بیٹی کا رحمت یا زحمت ہونا ظاہر ہے ۔ہمیں اس پر سنجیدگی سے سوچتے ہوئے ،ان واہموں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ ”رشتہ دار کیا کہیں گے ،عزیز کیا کہیں گے اور لوگ کیا کہیں گے ”،ایسے مواقع سے ان رواجوں کو نکالنا ہوگا جنہوں نے معاشرے میں جینا دو بھر کردیا ہے ۔اگر ایسا ممکن ہو جائے تو اس تذبذب،تزلزل،اضطراب اور بے چینی کو قرار آ جائے گا جو معاشرے میں پھیل ہے
اور
بیٹی کھوئی ہوئی متاع پھر سے پا لے گی ۔
@NZ760

Leave a reply