بیٹیوں کی تعلیم اور تربیت .تحریر ارم رائے

0
45

بیٹیاں جو گھر کی رونق ہیں۔ بیٹیاں جو کھلتی کلیاں ہیں۔ بیٹیاں جو مسکرائیں تو لگتا ہے کہ کائنات مسکرا رہی ہے۔ بیٹیاں جن کے بغیر گھر بے رونق ہیں۔ بیٹیاں جنکے بغیر والدین کی زندگی تو بے رونق ہے ہی انکے جنازے تک بے رونق۔ بیٹیاں جو والدین کی خدمت میں سب سے اگے۔ بیٹیاں جنکے بغیر کائنات کا وجود بے رونق۔ بیٹیاں جنہیں عزت اسلام نے دی۔ بیٹیاں جو آپ صلی الله عليه والہ وسلم کے جگر کا ٹکڑا۔ دین اسلام نے بیٹوں کے برابر بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیا لیکن کیا ہم اس پر عمل کررہے ہیں؟ آج کی بچی کل کی ماں کیا ہم اسے انے والے وقت کے لیے تیار کررہے ہیں؟ کیا مستقبل کی زمہ دار کو انے والے وقت کے لیے تیار کررہے ہیں؟ لاڈ محبت پیار اپنی جگہ کیا انہیں مستقبل کی زمہ داریوں کے بارے میں بتا رہے ہیں؟ کیا تعلیم دے رہے ہیں تو ساتھ تربیت کررہے ہیں؟ بدقسمتی سے تعلیم سے مراد ہم سکول کالج یونیورسٹی کی تعلیم لیتے ہیں ہم بی ایس ایم ایس ایم اے ایم فل پی ایچ ڈی کو تعلیم سمجھتے ہیں حالانکہ یہ تعلیم نہیں ہے یہ تو ہمارے فیس ادا کرنے کے سرٹیفکیٹس ہیں۔ ڈگری ایک کاغذ ہے کہ ہم کسی ادارے میں اتنے سال رہے۔ تعلیم تو وہ ہے جس کا مظاہرہ ہمارے الفاظ ہمارے کردار ہمارے رویے سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہم ہر کسی کو اپنا تعلیمی کارڈ نہیں دیکھا سکتے ہم نے اپنے رویے سے بتانا ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ہیں۔ کہیں ایک فنی بات پڑھی تھی کہ "آنے والی نسل کے تو بیڑے ہی غرق ہیں کیونکہ انکے بڑے بزرگ ہم ہیں” دیکھا جائے تو یہ بات مذاق نہیں بلکہ بہت بڑا المیہ ہے ہم اس پر توجہ کیوں نہیں کررہے؟ ہم سمجھ رہے ہیں کہ بچے کو مہنگے سکول میں داخل کروا دیا اور اسکی ہر چیز پوری کررہے ہیں ہر خواہش پوری کررہے ہیں تو مطلب ہم تربیت کررہے ہیں یہ تربیت نہیں ہے تربیت ماؤں کا اپنا رویہ ہے وہ جو کچھ کریں گی بچی وہی دہرائےگی۔ تو کیا اسکی تیاری ہے؟

گھر میں سارا دن رشتوں کے خلاف ایک دوسرے کو کیا ہوا ہے بچے جو دیکھ رہے وہ سیکھ رہے ہیں اور مستقبل میں اسی ہر عمل کریں گے۔ مہنگی تعلیم کے ساتھ بچیوں کو وقت دیں انکی ایکٹویٹیز پر نظر رکھیں اس کی دوستوں کا سرکل دیکھیں اچھا برا ساتھ ساتھ بتائیں۔ کہیں غلطی پر ہے بچی تو منع کریں پیار سے سمجھائیں۔ میں حیران ہوتی ہوں جب بچیوں کو ایسے الفاظ استعمال کرتے دیکھتی ہوں جو غیر معمولی نہیںہوتے لیکن بچیوں کو پتہ ہی نہیں کہ وہ استعمال کرنے ہیں یا نہیں۔ لباس کے نام پر فیشن کے نام پر بچیوں کو ننگا مت کریں انکو بتائیں کہ زندگی گزارنے کے لیے کیا کیا ضروری ہے۔ حلال حرام کی تمیز سکھائیں۔ فیشن اور ماڈرنزم مادر پدر ازادی کو نہیں کہتے ہیں بلکہ وسعت قلب اور وسعت زین کو کہتے ہیں۔ میں نے بہت بڑے کالجز میں دیکھا ہے کہ انکا بڑا ہاتھ بچیوں کے بگاڑنے میں آپ سوچ رہے ہونگے کہ کیسے؟ وہ ایسے کہ پرائیویٹ ادارے ہوں یا گورنمنٹ کے بچیوں کو بری بات پے بھی منع نہیں کیا جاسکتا۔

اساتذہ بچیوں کے رحم و کرم پر ہیں خاص طور ہر خواتین اساتذہ۔ مرد اساتذہ بھرتی کر کے بھی بچیوں کے دماغ کے ساتھ کچے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ ایف ایس سی کی بچیوں کے ساتھ تو کھلواڑ ہوہی رہا ہے۔حیرانگی ان پرائیویٹ اداروں کی یونیورسٹی کلاسز پر ہے جن پے بچیاں ادھی سے زیادہ دوسرے اور تیسرے سمیسٹر تک شادی کر لیتی ہیں وہ بھی نہیں جانتیں کہ کیا بات کرنی ہے کیسے بیٹھنا ہے کیسے چلنا ہے کیسے پہننا ہے۔ یہ مت سمجھیں کہ کالجز یا یونیورسٹی میں سوئپر ہے شاپ کیپر ہے گارڈ ہے آپ سٹیٹس کو چھوڑیں اسکی زہنیت نہیں بدل سکتے اس لیے اپنے اندر تبدیلی لائیں۔ اپنے آپ کو سمجھیں۔ راستے میں پڑی پلیٹ کو پاؤں سے سائڈ پر کرنا یا بوتل پی کر وہیں پھینک دینا ریپر پھینک دینا یا جوس کا خالی ڈبہ ڈسٹ بن کے بجائے کہیں بھی رکھ دینا فیشن نہیں ہے۔ ماڈرنزم نہیں ہے۔اور نا ہی یہ طریقہ اپکو امیر یا لاڈلا بناتا ہے یہ بدتہذیبی میں اتا ہے۔ آپ لاڈلے نہیں لوگوں کی نظر میں بدتہذیب کہلاتے ہیں اور بحثیت مسلم بھی ہم پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم صفائی کا خیال رکھیں کیونکہ یہ "نصف ایمان” ہے اس لیے اپنی بچیوں کی تربیت خود کریں اداروں میں صرف ڈگری دی جارہی ہے اپکی دی ہوئی فیسوں کی رسید دی جارہی ہے تربیت نہیں کی جارہی۔ یہ بچیاں آنے والے وقت میں گھر کیسے سمبھالیں گی؟ بچے کیسے پالیں گی؟ بچوں کی تربیت کیسے کریں گی۔ خدارا والدین توجہ دیں اس پر۔
جزاک الله
@irumrae

Leave a reply