بھاگ بھری حکومتیں اور حافظ عوام
از قلم غنی محمود قصوری
کسی گاؤں میں ایک نابینا شحض رہتا تھا جو صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا مگر نابینا ہونے کے باعث اس کی شادی نہیں ہو رہی تھی اس نابینا شحض کو لوگ ،حافظ، کہا کرتے تھےحافظ خوبصورت گھبرو جوان تھا مگر ستم ظریفی کہ بینائی نا ہونا شادی میں رکاوٹ تھی،اسی گاؤں میں ایک شحض رہتا تھا جس کی جوان لڑکی تھی جسے کوڑھ کا مرض تھا ماں باپ نے بیٹی کا نام ،بھاگ بھری، رکھا تھابھاگ بھری بھی بیماری کے باعث شادی سے محروم تھی-
اللہ رب العزت نے کوئی انسان ناکارہ اور بدصورت نہیں بنایا پھر بھی ہر کسی کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے کسی کو کوئی چہرہ پسند ہے تو کسی کو کوئی اسی باعث بھاگ بھری اور حافظ دونوں کنوارے تھے حالانکہ جیتے جاگتے اچھے بھلے انسان تھے مگر شادی سے محروم
لڑکی کے والد نے گاؤں کے چند معتبر لوگوں سے صلاح مشورہ کیا اور نابینا حافظ کے پاس اپنی بیٹی کا رشتہ لے کر پہنچا اور اسے کہا کہ تم خوبصورت گھبرو جوان ہو نمازی بھی ہو مگر تم کو کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے رہا میری ایک جوان بیٹی ہے جو کہ بہت خو بصو رت ہے اسی لئے ہم نے اس کا نام بھاگ بھری رکھا ہے تم اس سے نکاح کر لو تمہار بھی گھر بس جائے گا-
نابینا حافظ خوش ہو گیا کہ اس کا گھر بس جائے گا اور ایک خوبصورت دوشیزہ اس کی بیوی بنے گی مقررہ وقت پہ دونوں کا نکاح کر دیا گیا تو کچھ لوگوں نے نابینا حافظ کو طعنے مارنے شروع کر دیئے کہ تم خوبصورت ہو مگر تمہاری بیوی بہت بدصورت حافظ نے اپنی بیوی سے کہا کہ لوگ ایسے کہتے ہیں اپنا گھر بچانے کی خاطر شاطر بھاگ بھری نے کہا کہ سرتاج کیا آپکو میرے والد اور گاؤں کے ان معتبر بندوں پہ اعتبار نہیں کہ جو میرا رشتہ طے کرنے ائے تھے؟
میں تو اتنی خوبصورت ہوں کہ روز اچھے سے اچھے رشتے آتے تھے مگر میرا والد نیک دل ہے اس نے تمہارا دین سے پیار دیکھا اور میری شادی تم سے کر دی ورنہ میں تو اتنی حسین و جمیل ہوں کہ دور دیہات کے گاؤں تک میرے حسن کے چرچے ہیں اگر تمہیں پھر بھی یقین نہیں تو دعا کرو اللہ تمہیں دیکھنے کی طاقت دے تو پھر اپنی آنکھوں سے خود ہی دیکھ لینانابینا حافظ مطمئن ہو گیا اور دن رات رب سے اپنی بینائی کی دعائیں کرنے لگا-
حافظ کی دعائیں رنگ لائیں اور گاؤں میں آنکھوں کا ایک ڈاکٹر آیا حافظ اس کے پاس پہنچا ڈاکٹر نے چیک اپ کرکے کہا کہ مکمل تو نہیں مگر تمہاری بینائی اتنی واپس ا جائے گی کہ تم لوگوں کو قریب سے دیکھ سکو گے اور اس آپریشن کا خرچ 5 ہزار روپیہ ہو گا حافظ خوشی سے جھومتا گھر پہنچا اور اپنی بھاگ بھری کو خوش خبری سنائی اور سارا قصہ بیان کیا-
بات سن کر بھاگ بھری سہم گئی کہ میں تو بدصورت ہوں اور اسے بہت خوبصورت بتلایا ہے اگر اس نے مجھے دیکھ لیا یہ تو مجھے طلاق دے گا سو بھاگ بھری فوری اسی ڈاکٹر کے پاس پہنچی اور اسے کہا کہ میرا گھر اجر جائے گا تم 5 ہزار کی بجائے 10 ہزار مجھ سے لو اور حافظ کا آپریشن نا کرنا بلکہ اسے ٹرخا دینا-
سو ڈاکٹر نے بھاگ بھری سے پیسے لئے اور حافظ کو اگلی بار جانے پہ ٹرخا دیا مذکورہ بالا واقعہ ہمارے ملک پہ بلکل فٹ ہوتا ہے عوام بینائی سے محروم حافظ ہے اور بھاگ بھری سے بدصورت کریہہ ناک حکمران جو عوام کو بڑے پیارے پیارے سبز باغ دکھلاتے ہیں اور اپنی کمائی کا گھر بسائے ہوئے ہیں اور عوام کو الجھا کر رکھا ہوا ہے کہ عوام بینائی پا کر ان کا اصل چہرہ نا دیکھ لے-
اگر عوام نے ان کا پروٹوکول ،ان کی مراعات ان کی شاہ خرچیاں سچ مچ دیکھ لیں تو عوام ان کو طلاق یعنی ان کا بائیکاٹ کرے گی سو اسی لئے یہ لوگ جب خود اقتدار میں ہوتے ہیں تو دوسروں پہ کیس بناتے ہیں اور اپنے اقتدار کی مہنگائی کو بھی خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیں اور اقتدار سے جاتے ہی مہنگائی کا رونا روتے ہیں اور خود اپنے اوپر کرپشن کے بنے کیسوں پہ روتے ہیں-
بھاگ بھری سے ساز باز کرنے والا کردار ہماری میڈیا اور ادارے کرتے ہیں جو ان کے گند کو قلاقند ثابت کرتے رہتے ہیں یہ نظام بہت کریہہ ناک اور گندہ ہو چکا ہے ویسے تو قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی مہنگائی نے زور ڈالنا شروع کر دیا تھا مگر تاریخ پاکستان گواہ ہے کہ 2008 سے زرداری دور میں مہنگائی کچھ ابھری اور 2018 تک ن لیگ کی گورنمنٹ میں اوپر آئی مگر 2018 سے عمران خان کے دور حکومت میں جو رفتار مہنگائی نے پکڑی اس کو مذید ہوا شہباز شریف نے دی اور مذید چیخیں لوگوں کی نکلوائیں مگر اس سے بھی زیادہ نگران گورنمنٹ کاکڑ نے لوگوں کو زندہ درگور کر دیا تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈر بھاگ بھری ہیں اور عوام حافظ،-
اللہ اس قوم کو کوئی اچھے مخلص نا بکنے والا ڈاکٹر نصیب فرمائے جو قوم کی بینائی کا ایسا آپریشن کرے کہ اس قوم کو بھاگ بھری کا اصل چہرہ نظر آئے،آمین