بھارت کے بعد اب پاکستانی کسان بھی خودکشی پر مجبور کیے جارہے ہیں ، پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی

0
46

پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے وائس چیئرمین خلیل احمد تھند اور پی ڈی پی ریسرچ ونگ کے ڈائریکٹر بہروز فلفلی نے کہا ہے کہ چند بڑے جاگیر داروں کے علاوہ ملک کے 70% چھوٹے کسان ہیں جو ملک کی زراعت کی جان ہیں، ان کے مسائل سے حکومت کی عدم دلچسپی زرعی ملک کو دیوالیہ کر دے گی۔ حکومت کسانوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں گرفتار کررہی ہے،

ان پر لاٹھی چارج اور تشدد کر رہی ہے اور ان کے حقوق پرآنکھیں بند کئے بیٹھی ہے۔ کسانوں کو اپنے مطالبات کے لئے احتجاج کے آئینی حق سے روکنا حکومتی فسطائیت اور گھبراہٹ کی علامت ہے۔ کسانوں کی محنت سے ملک میں زندگی کی رونقیں ہیں لیکن انکی محنت کے عوض انہیں خوشحالی کی بجائے بد ترین بد حالی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کسانوں کو اجناس کا غیر منصفانہ معاوضہ دیا جانا ان کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ محنت کسان کرتا ہے جبکہ فائدہ بڑا جاگیر دار اورسرمایہ دار اٹھاتا ہے۔ زرعی ادویات، بیج اور کھادوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ کئی کئی ماہ کی محنت کے بعد بھی کسان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ چھوٹا زمیندار مہنگائی کے ہاتھوں بری طرح متاثر ہورہا ہے۔

حکومت کسانوں کو زرعی ادویات، بیج اور کھاد مناسب داموں فراہم کرنے کے انتظامات کرے۔ ایسا نہ ہو کہ پڑوسی ملک کے کسانوں کی طرح ہمارے کسان بھی خود کشی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس سے قبل ہی حکومت اور اداروں کو کسانوں کی حالت زار کی بہتری اور ان کی محنت کا جائز معاوضہ دینے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ زمینوں کو بنجر کرنے والے جی ایم او (Genetically Modified Organism) بیجوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ پاسبان پریس انفارمیشن سیل سے جاری کردہ بیان میں خلیل احمد تھند اور بہروز فلفلی نے مزید کہا کہ پاسبان کی پاہرین زراعت سے وسیع پیمانے پر مشاورت جاری ہے جس کے نیتجہ میں جلد ہی لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان ایک زرعی اورقدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن اس کے باوجود گندم، چینی اور دیگر اجناس باہر سے منگوائی جارہی ہیں۔ یہ سب ناکام حکومتی پالیسی کی وجہ سے ہے جس کا خمیازہ چھوٹا کسانوں اور عام شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اور صنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

زراعت ملک کا اہم شعبہ ہونے کے باوجود غلط حکمت عملی کی وجہ سے بری طرح نظر انداز اور تباہ ہورہا ہے۔ کسانوں کو ظالمانہ و جاگیر دارانہ نظام، آبپاشی کے بوسیدہ نیٹ ورک اور پانی کی کمی،فرسودہ اور پرانے طریقہ کاشتکاری،مہنگی اور جعلی زرعی ادویات، سودی زرعی قرضوں جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔کسانوں کو ان کی اجناس کے معقول معاوضے بھی نہیں ملتے۔ زرعی شعبہ خصوصی فنڈز کی کمی کا بھی شکار ہے۔

پاسبان رہنماؤں خلیل احمد تھند اور بہروز فلفلی نے کہا کہ حکومت زراعت کو ایک انڈسٹری کا درجہ دے کر کسانوں کو تمام مطلوبہ سہولیات مہیا کرے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے سنجیدگی سے سوچ بچار کرے ورنہ آنے والے سالوں میں گندم اور دیگر زرعی اجناس کی کمی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی،

Leave a reply