بھاری ٹیکسز کے باوجود موٹر وے پر ڈکیتی کی وارداتیں تحریر : شکیل اعوان

0
71

لاہور اسلام آباد موٹروے کے درمیان سفر کرنے والے احباب یقینا بھیرہ سروس ایریا سے واقف ہوں گے مسلسل اور کبھی کبھار تفریحی سفر کرنے والے اس مقام پر رکتے ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہاں پر کئی بڑی فوڈ چینز کا ہونا ہے چاہے آپ ضورت سے نکلے ہوں یا تفریح کی غرض سے بھوک لگے تو کوشش کرتے ہیں کہ بجائے دوسرے ریسٹ ایریازکے بھیرہ کو ترجیح دی جائے…میں خود مسلسل سفر میں رہتا ہوں…

تین سال قبل فیملی کے ساتھ رات میں جانب لاہور گامزن تھا کے سب کی طرح ریفرشمنٹ لینے اور فریش ہونے کیلیے گاڑی مکڈونلڈ کے سامنے پارک کی اور سب اندر چلے گے…فارغ ہو کے جب باھر آے تو مجھے محسوس ہوا کے کار کے گرد موجود صفائی والے ایک کے بجاے تین موجود ہیں اور کن انکھیوں سے مجھے دیکھ رہے ہیں… ( میرے محسوسات ذرا کچھ زیادہ تیز ہیں)… بہرحال گاڑی میں بیٹھ کے اندازہ ہوا کہ گاڑی ڈس بیلنس ہے باہر نکل کے پیچھے کی جانب نظر دوڑائی تو ٹائر بالکل فلیٹ نظر آیا جو کہ گاڑی پارک کرتے ہیں بالکل صحیح حالت میں تھا …

لیکن شومئی قسمت میں پانا بھول آیا تھا یا کسی میکینک نے صفائی سے نکال لیا تھا میں نے قریب ہی موجود وورکشاپ کی جانب بچے کو دوڑایا اور کہا کہ پنکچر والے کو بلا کے لے آے وہیل پانے کے ساتھ میرے پاس باقی سامان موجود ہے اس نے آکے کھولا اور ٹائرتبدیل کیا..میں نے سوچا کہ پکچر بھی احتیاطا یہیں سے لگا لیتے ہیں ہیں بہرحال قریبی موجود ورکشاپ پہ گیا اورٹائر بدلوایا اس دوران مجھے ٹائر بدلتے ہوئے موصوف نے کہا ذرا اسٹیئرنگ دوسری سائیڈ گھما لیں میں اگلے ٹائر میں ہوا چیک کر لوں ..میں نجانے کیوں نہ چاہتے ہوے بھی اسٹیئرنگ سائیڈ پے گیا اور گہمایا اس دوران واپس پلٹ کر گیا ہے تو موصوف نے کہا کہ آپکا یہ ٹائر بھی پنکچر ہے اور اس میں سے ہوا خارج ہو رہی ہے …یہ بتانا بھول گیا کہ اس پہلے جب پنکچر ٹائرکو چیک کیا تو اس میں پنکچر پلایی سائیڈ وال سے تھا جو کہ نۓ ٹائر میں کیا پرانے میں بھی کبھی کبھی ہوتا ہے…ورکشاپ والے نے کہا دوسرا ٹائر بھی سائیڈ وال سے پنکچر ہے…اور دونو ٹائر آپکے بیکارہوچکے ہیں جب میں نے جاننا چاہا کہ پرانے ٹائر دستیاب ہیں تو اس نے کہا کے نہیں چائنا کے ٹائرملیں گے دوسری سائیڈ پے موجود ورکشاپ پے اور وہ بھی آٹھ ہزار کا ایک.

اس دوران مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے…میں شدید غصے سے اسے دو چار سنائی اور گاڑی میں بیٹھ کر جانے لگا تو…اس نے پیچھے سے انتہائی ڈھٹائی سے آواز ماری کے اس ٹائر کے ساتھ آپ 15 کلومیٹر سے زیادہ نہیں جا سکتے….میرا ایک ٹائر پہلے ہی بیکار ہو چکا تھا سٹیپنی لگ چکی تھی اور اگلے ٹائر کی پلائی میں بھی سوئی مار کر وہ تقریبا ہوا نکال چکا تھا جو کہ ہلکے ہلکے خارج ہو رہی تھی …میں واپس موٹروے پہ چل پڑا اگلا انٹرچینج پینتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا تھوڑی دور جا کر مجھے موٹروے پولیس دکھی میں نے جا کر جب شکایت کی تو انہوں نے محض خانہ پری کرنے کے لیے کچھ ڈیٹیل لی اور مجھے کہا کہ سروس ایریا ہماری عملداری میں نہیں آتا ….مور کمپنی کے پاس ٹھیکے پر موجود ہے آپ ان سے شکایت کریں یہ سب وینڈرز انہی کے بھرتی کیے ہوئے ہیں…میرے بہت تلملاتے ہوئے سوال پر کے اگر ریسٹ ایریا پر میرے ساتھ کوئی جعلسازی ہوتی ہے تو وہ پولیس کیس ہے یا اس کے لئے مور کمپنی کے آفس جاؤنگا؟؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا..اگلے انٹرچینج تک پہنچتے ہوئے میرا ٹائر بالکل فلیٹ ہو چکا تھا خوش قسمتی کہ انٹر ہوتے ہی پنکچر والے بیٹھے تھے جن میں سے ایک پنکچر والے سے میں نے نے پرانے دوٹائر چار چار ہزار روپے کے لئے جو کہ شاید نارمل حالات میں سات آٹھ سو کے مل جاتے…(اور جو دونو ٹائر میرے خراب ہوے تھے وہ بھی بلکل نۓ تہے) مجھے اس کا بھی اس نے احسان جتایا اور پورا واقعہ سن کر کہا کہ آپ اکیلے نہیں ہیں بہت سے لوگوں کے ساتھ یہ یہی کرتے ہیں…

لاہور جاتے ہوئے میں نے کسی طرح سے علاقے کے کرنل صاحب کا نمبر لیا جو اس ایریا کو کور کرتے تھے قسمت اچھی تھی کہ انہوں نے پہلی ٹرائی پر ہی فون اٹھا لیا اور پوری بات سن کر کہا ایک میجر صاحب آپ کو فون کریں گے انہونے نے کہا کچھ واقعات پہلے بھی ایسے میرے علم میں آے ہیں ہم اس کو سنجیدگی سے دیکھیں گے..دس منٹ کے اندر ہی مجھے میجر صاحب کی کال موصول ہوئی اور پوچھا کے ” آپ اس وقت کہاں ہے میں نے کہا لاہور کے قریب ہوں تو انہونے کہا کہ جس وقت بھی آپ کی جس دن واپسی ہو مجھے کال کر لیجئے گا میں فورا بھیرہ پہنچ جاؤں گا”…. میری رہائش قریب ہی ہے….لاہور پہنچ کر اگلے دن ٹائر شاپس گیا تو وہاں بھی جعلسازی عروج پر تھی کہ پرانے ٹائر پرنئی تاریخ ثبت کر کے بیچے جا رہے تھے ایک شاپ والے صاحب کو خود پر بیتی سنائی تو چھٹتے ہی انہوں نے کہا کیا آپ کے ساتھ یہ واقعہ بھیرہ پر پیش آیا تھا کیا ؟؟ مرے اثبات پر کہا ” میرے پاس تین ایسے لوگ اور آے تھے وہ بھی فمیلی کے ساتھ سفرکر رہے تھے ..سب کچھ ایسا ہی بھیرہ پر ہوا تھا انکے ساتھ بھی ”….

ایک دن کے بعد واپسی کے سفر میں میں نے بھیرہ کے قریب پہنچ کر میجر صاحب کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں آنے کی لیکن آج میری چھٹی ہے تو میں گھر پر ہی موجود ہوں آپ انتظار کر لیجئے میرا اگر ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگ سکتے ہیں جو کہ شاید انہیں بھی معلوم تھا کہ میں فیملی کے ساتھ ہوں اور ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ نہیں رکھوں پہلا سٹیٹمنٹ انکا یہ تھا کہ جب کہیں گے پندرہ منٹ میں آجاؤں گا …بہرحال ان سے معذرت کی اور آگے روانہ ہو گیا…واپسی کے سفر کے دوران ہیں میں نے کوشش کی کہ مور کمپنی کے آفس چلا جاؤں جو کہ شاید سیال سروس ایریا کے ساتھ ہے وہاں جا کے پتہ چلا کہ وہاں صرف ایک کلرک نما لڑکا بیٹھا ہے جو کہ مکمل طور پر ڈھٹای کے ساتھ سب کچھ سن کر بھی کچھ نہیں سنتا اور کچھ نہیں کہتا…

یہاں سے مایوسی کے بعد میں آگے روانہ ہوا اور راستے میں آئی جی موٹروے آفس کا نمبر ڈائل کیا ایک صاحب نے وہاں سے فون پر ارشاد کیا کہ آپ اسلام آباد میں ہمارے آفس تشریف لے آئیے اور اپنی شکایت پورے طریقے کے ساتھ درج کرائیے آن لائن شکایت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے…یاد رہے کہ کمپلینٹ آن لائن نمبر پر میں پہلے ہی کر چکا تھا لیکن انہوں نے بھی مجھے مکمل طور پر ٹرخا دیا تھا کہ دیکھتے ہیں…اسلام آباد واپس پہنچ کر میں اپنے پرانے لگائے گئے دونوں ٹائر تبدیل کرانے جب اپنے ٹائر وینڈر کے پاس گیا جس کا کافی بڑا شوروم ہے اور میرا اچھا دوست بھی تھا اس نے پوری سٹوری سن کر کر کہا کہ اس طرح ہمارے دو اور کسٹمر کے ساتھ بھی ہوا ہے جو چند ماہ پہلے ہمارے پاس آئے تھے…اس کے علاوہ جو بھی دوڑ دھوپ تھی لیکن نتیجہ صفر ہی تھا کہ کوئی بات سننے کو تیار ہوتا تو ”دیکھتے ہیں کہہ کرکے آگے بڑھ جاتا تھا ”اندازہ تھا کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہو سکتا بہرحال چار ماہ کے بعد تقریبا ایک دوست نے دنیا نیوز کی خبر کی ویڈیو ریکارڈ کر کے بھیجی کہ بھیرہ سے لوگوں کے ساتھ فراڈ کرنے والے میکینکس کو اریسٹ کر لیا گیا اور ورک شاپ بند کر دی گئی… کچھ اطمینان ہوا کہ چلو دیر سے سہی کچھ تو ایکشن ہوا….

بہر حال اس کے بعد سے عادت بنالی کہ سفر میں خصوصا موٹروے پر گاڑی کو تنہا نہیں چھوڑنا کوئی نہ کوئی ایک اس کے ساتھ رہے گا…اتنے برس بعد اس تفصیل کو دوستوں کے ساتھ شئیر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج پھر وہی واقعہ ”مورخہ چھبیس جولائی دو ہزار بیس کو” میرے دوست کے ساتھ کراچی سے آتے ہوئے بھیرہ پرہوا..ویسے ہی پلائی سائیڈ وال پر پنکچر جسکی کے انکو گاڑی صاف کرنے والا واش روم سے واپسی پر خبر دیتا ہے..اور پھر ایک ٹائر انکو آٹھ ہزارمیں فروخت کردیا جاتا ہے…(کمبختو نے تین سال سے ٹائر کا ریٹ نہیں بدلہ کمال ہے ) یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ موٹروے کے بھاری اخراجات کی ادائیگی کرنے کے باوجود بھی ہم اس لٹیرے پن کا شکار رہتے ہیں اور وارداتیں ہمارے ساتھ ڈالی جاتی رہتی ہیں…کوئی حکومت آئے جائے لیکن ان فراڈیوں کو کوئی قابو نہیں کر سکتا بڑی مافیا ز تو بہت دور کی بات ہیں…ایک اور وجہ بھی یہ ہے اس تفصیل کو ا حباب کے ساتھ شئیر کرنے کی کہ جو بھی دوست موٹروے پر متواتر سفر کرتے ہیں وہ محتاط رہیں. کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان لوگوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کچھ وقفے کے بعد یہ دوبارہ ایکٹو ہو جائیں گے اس کام میں ان کے ساتھ تقریبا سبھی لوگ شامل ہیں.

میرے اندازے کے مطابق یہ وارداتیں صرف انہی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں جو کہ فیملی کے ساتھ ہوتے ہیں اور مڈ یوکر فیملی سے تعلق رکھتے ہیں… جہاں تین چار لڑکے ہوں یا مہنگی گاڑی والوں کے ساتھ یہ واقعات نہیں ہوتے..سروس ایریا کی صفائی کا کام کرنے والے ان کا ہر اول دستہ ہیں جو کہ کمال خوبی کے ساتھ باریک سوئی سے ٹائر کے سائیڈ وال میں سے ہوا نکال دیتے ہیں…اور یہی اپنے شکار کا انتخاب کرتے ہیں اس کے بعد باقی کام ورکشاپ والے میکینک کا ہوتا ہے…ان کو پکڑنا بالکل بھی ناممکن نہیں ہے جس جگہ آپ نے گاڑی پارک کی تھی وہاں پر لازمی سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوتے ہیں میں نے مکڈونلڈ کے مینیجر کو بھی خبردار کیا تھا کہ تمہاری پارکنگ میں یہ کارروائی ہو رہی ہے اس کے علاوہ کوئی بھی چاہے تو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ان کو پکڑ سکتا ہے لیکن کون پکڑے ہر وہ بندہ جو سفر میں ہوتا ہے اسے اپنی منزل پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے اور اس کا یہ لوگ سب مل کر فائدہ اٹھاتے ہیں.

Leave a reply