بڑھتی ہوٸی مہنگاٸی کی چکی میں پستی ہوٸی غریب عوام تحریر:شمسہ بتول

0
59

یوں تو ہر دور میں ہی مہنگاٸی میں اضافی ہی ہوا ہے لیکن دور حاضر میں مہنگاٸی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے گۓ ہیں۔

پہلے مہنگاٸی ایک مسٸلہ تھا مگر اب دن بہ دن یہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک لعنت کی شکل اختیار کرتی جا رہی یہ ایک ایسا ناسور بن چکی ہے جس سے صرف کمزور اور دیہاڑی دار طبقہ پستا جا رہا ہے ۔

 دنیا کے دیگر ممالک بھی اس مسٸلے سے دوچار ہیں مگر انکی پالیسیز ایسی ہیں کہ کسی بے روزگار بندے کو خودکشی نہیں کرنی پڑتی کوٸی ماں اپنے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ نہیں لگا دیتی کہ وہ اس کے اخراجات پورے نہیں کر پا رہی کیونکہ ان کے ہاں Unemployment Insurance Benefit پالیسی بہت بہتر طریقے سے کام کر رہی کہ جب تک آپ بے روزگار ہیں آپ کے اخراجات ریاست کے ذمہ ہیں یہ سسٹم ہمارے خلفاۓ راشدین کے دور میں تھا کہ جو اس قابل نہیں ہیں کہ ضروریات زندگی خرید سکیں انکو ریاست کی طرف سے راشن بھیجا جاتا اور انکی ضروریات پوری کی جاتی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے ان کی تعلیمات کو چھوڑ دیا اور غیروں نے انہیں اپنا لیا۔

آج پورا ملک خطرناک Inflation کی زد میں ہے اگر اسے hyperinflation کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا۔

عالمی منڈی میں جب پیٹرول کی قیمت اوپر جاتی تو اس کے اثرات تمام ممالک پہ ہوتے لیکن ان ممالک کی کرنسی ہماری کرنسی کی نسبت زیادہ قدر رکھتی اور ان ممالک کے لوگوں کی فی کس آمدنی (Per Capita Income ) ہماری نسبت بہت بہتر ہے اس لیے انکی زندگیوں پہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہونے سے دیگر اشیاء کی قیمتوں میں جو اضافہ ہو گا اس کے اثرات کم ہونگے مگر ہمارے ہاں شخصی آمدنی بمشکل 12,000_10,000 روپے ہے اور حالیہ کچھ دنوں میں پیٹرول کی قیمت میں اضافہ 10 روپے کے حساب سے کیا گیا ہے جس کے اثرات صرف فیول انڈسٹری پہ نہیں بلکہ پورے ملک پہ مرتب ہوۓ پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے ٹرانسپورٹ کے کراۓ بڑھیں گے اب جو بندہ مہنیہ بھر کا کما ہی 12,000 روپے رہا ہو وہ روزانہRs.150 تک کرایہ دے کر مزدوری کرنے جاۓ گا تو پر بیوی بچوں کو کیا کھلاۓ گا وہ گھر کا کرایہ یا بل دے گا یا راشن خریدے گا ؟ پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے گھی ، چینی اور دیگر اشیاۓ خوردونوش کی قیمتیں بھی بڑھ گٸی اب ایک مزدور تو دو وقت کے لیے تو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری ہو گی تو وہ اپنے خاندان کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کیسے فراہم کرے گا ؟ اس بچے جو اس قوم کا مستقبل ہیں وہ تعلیم تک رساٸی حاصل نہیں کر پاٸیں گے نتیجتاً ہمارے نسل لا شعور اور اندھیروں میں رہے گی ۔اور جو زیادہ دلبرداشتہ ہونگے وہ خودکشی کی طرف چلیں جاٸیں گے ایسے واقعات سے ہمارامعاشرہ بھرا پڑا ہے مگر نا جانے کب ہمارے لیڈران اپنی ذاتیات سے باہر نکل کر عام عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پالیسیز بناٸیں گے نہ جانے کب لاکھوں کی تنخواہ اور ضرورت سے زیادہ سرکاری مراعات لینے والے منسٹرز وطن عزیز کی ترقی کے لیے کام کریں گے نہ جانے کب ملکی فلاح و بہبود کے لیے بناٸیں جانے والے منصوبوں میں سیاستدان کرپشن نہیں کریں گے اور اس عوام کو ریلیف دیں گے۔

ہمارے اوپر IMF کے قرضوں کا بوجھ ہے لیکن اس بوجھ کو کم کرنے کیلیے عوام پہ ٹیکس کا بوجھ ڈالنے کی بجاۓ اگر سرکاری افسران اور منسٹرز کو ملنے والی آساٸیشات میں کچھ کمی کر دی جاۓ تو اس طرح بھی بہت سے اخراجات کم کیے جا سکتےلیکن سارا بوجھ عوام پہ ڈالنےسے مساٸل مزید بڑھیں گے کیونکہ ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کہ باوجود بھی ابھی تک بیروزگار ہے وہ مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں دن بہ دن ڈالر کی اونچی اڑان اور  عالمی منڈی میں روپے کی گرتی ہوٸی قدر ہماری معیشت کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ معیشت کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی اگر وہ ہی کمزور ہو جاۓ یا تباہ حالی کا شکار ہو جاۓ تو اس ملک کی بنیادوں کو بھی کمزور کرنے لگتی ۔ ہمیں سنجیدگی سے اس مسٸلے پہ غور و فکر اور اس کے حل کیلیے مناسب اور Effective policies بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

@sbwords7

Leave a reply