"بھیدوں بھرا مہاکھڈ”.تحریر:اعجازالحق عثمانی

makhad

بل کھاتا ڈھلوانی راستہ،اور راستے میں اداس چرواہوں،بے چین و مغموم پرندوں،شدید سوگوار ایستادہ درختوں کے سنگ چلنے کے بعد اچانک ایک موڑ پر منظر کھلتا ہے۔نیلے،سفید گنبد اور ایک آبادی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ منظر اداس راستے کی افسردگی اور پژمردگی ختم کرنے کےلیے کافی تھا۔انھی گنبدوں کے قریب مندر اور گوردوارے بھی موجود تھے۔ چاروں طرف ہی مذہبی رواداری کی خوشبو محسوس کی جاسکتی تھی۔ جب بارہویں کی کھیر کسی ہندو کے گھر کھائی جاتی،اور جب ہندو بہن،مرکزی بازار میں واقع سردار جی کی دکان سے خرید کر مسلمان بھائی کو راکھی باندھتی،تو پاس بہتا خاموش سندھو (دریائے سندھ) پُرجوش ہو کر اچھل پڑتا۔صد افسوس! آج منظر یکسر بدل گیا ہے۔یہ شہر تو وہیں ہے،مگر یہ مناظر وقت کی گرد میں کہیں دب گئے ہیں۔یہاں کے ملاحوں کی بستی کے بوڑھے ملاح نے اپنی بیڑی کے چھید تو بھر لیے،مگر بستی کی تاریخ و تہذیب کے پیراہن میں لگے چھید کون رفو کرے گا؟

گزشتہ برس عید پر آبائی گاؤں خوشحال گڑھ جانا ہوا۔مکھڈی حلوہ تو کھانے کو نہ ملا،مگر مکھڈ کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوگیا۔میں پہاڑوں کا مرید ہوں،اور وادیاں میری مرشد،جبکہ سفر،نہ راضی ہونے والی محبوبہ۔اسی کو راضی کرنے کےلیے مکھڈ شریف کےلیے رخت سفر باندھا۔بل کھاتے پہاڑی راستوں پر اس قدر اداسی و افسردگی تھی کہ سر سبز و شاداب درخت بھی غمکین معلوم پڑتے۔پورے راستے میں پہاڑوں کے علاؤہ چند چرواہے،ریوڑ اور طویل ویرانیاں۔۔۔۔۔۔ یہ سفر مجھے کسی ناپسندیدہ لیکچر سے بھی کہیں زیادہ بورنگ لگنے لگا۔مگر اچانک ہم ایک موڑ مڑتے ہیں،تو آنکھیں ٹھنڈی اور تھکان و اداسی زائل ہونے لگ پڑتی ہے۔نیلے نیلے گنبد اور ان کے قریب چھوٹی سی بستی دیکھ کر لگا کہ ویرانیاں اور اداسیاں ختم ہوئیں،اور آغاز بہار ہو گیا ہے۔مناظر آنکھوں میں قید کرتے آگے بڑھتے گئے،کیونکہ ہماری اصل منزل دریائے سندھ تھا۔اپنے وقتوں کے سب سے بڑے تجارتی مرکز سے آج گزرے تو یوں لگا کہ جیسے کسی شہر خموشاں سے گزر ہو رہا ہو۔یوں ہماری بہار و رونق کی امید دریائے سندھ پہنچنے سے پہلے ہی دریا برد ہوگئی۔

تاریخ کے اوراق کہتے ہیں کہ سی پیک تراپ انٹرچینج کے قریب دریائے سندھ کے کنارے آباد یہ مکھڈ، تاریخی تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔جب پٹڑیاں اور سڑکیں نہ تھیں،تب دریائی راستے استعمال کیے جاتے۔مکھڈ کے اہم ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ دریائے سندھ میں چلنے والے بحری بیڑوں کی آخری بندرگاہ تھی۔اور دوسری بڑی وجہ کہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کےلیے یہی سب سے موزوں ترین آبی بندرگاہ تھی۔کالا باغ کا نمک بھی اسی راستے سے افغانستان سے ہوتا ہوا دوسرے ممالک جاتا۔اس لیے اس دور میں یہ علاقہ بڑی تجارتی منڈی بن گیا تھا۔یہاں کے بازاروں میں قدیمی پتھروں اور لکڑی کے تختوں سے بنی موجود دکانیں آج بھی عظمت رفتہ کی قصہ خواں ہیں۔

بند بازار کو دیکھتے ہوئے،چلتے گئے۔اب راستہ قدرے مشکل شروع ہورہا تھا۔کیونکہ ہمیں نیچے دریا کی طرف جانا تھا۔چند قدم چلنے کے بعد ایک دیو مالائی خستہ حال مندر نظر آیا۔اسی عمارت کے قریب خاموش بہتا اداس دریائے سندھ اور دریا میں تیرتی چند کشتیاں۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ علاقہ نہ صرف تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا،بلکہ تہذیب و ثقافت کے بھیدوں کا مہاکھڈ بھی تھا۔ کئی گرودوارے، منادر اور ان پر بنے نقش نگار اپنی جانب متوجہ کراتے ہوئے،نوحہ کناں ہیں۔اس کی تہذیبی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ قبل از مسیح سے آباد ہے۔اور یہ بدھ مت،سکھ ازم،ہندومت اور اسلام چار تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ شہر مختلف سلطنتوں کا حصہ رہا۔1650 میں ایک صوفی بزرگ نوری بادشاہ یہاں آئے اور اسلام کی روشنی پھیلائی۔جن کا مزار آج بھی یہاں موجود ہے۔

سندھو دریا کے کنارے ہم نے مچھلی پلا تو نہ کھایا،مگر مچھلیوں کے قریب جانے کےلیے کشتی میں بیٹھ گئے۔لکڑی کے بھاری بھرکم تختوں کے اوپر لگا انجن اسٹارٹ ہونے سے سندھو کا سکوت ٹوٹا،تو برا بھی لگا۔مگر سورج کی شعاعوں سے سنہری لہریں دل کو بھانے لگی۔سندھو کی اٹھتی موجوں کو چھونے کا لمس۔۔۔۔۔اور سہنری لہریں،ہمیں کشتی سے اترنے ہی نہیں دے رہی تھی۔جب سورج نے غروب ہونے کی تیاری کی،تو ہم بھی گھر طلوع ہونے کے لیے نکل پڑے

"ایہہ پُتر روز نئیں جمدے” تحریر: اعجازالحق عثمانی

Comments are closed.