بچھڑے ہوئے کبھی نہیں آتے
از قلم: مشی حیات
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
خوشیاں ہوں یا غم چھوڑ کر چلے جانے والے ضرور یاد آتے ہیں۔ غم کے لمحات میں ان کا آخری دیدار رلا دیتا ہے اور خوشیوں کے موقع پر ان کی زندگی کے حسین لمحے۔۔۔۔
یہی کہانی میری ہے جو ایک حقیقت ہے، سچائی ہے اور وہ ہستی ہیں ۔۔
میرے بابا
میں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی تو خود کو ماں کی گود کی جنت اور بابا کے شفقت بھرے سائے میں پایا۔۔
بابا دن رات محنت کر کے ہم بہن بھائیوں کی پرورش کر رہے تھے اور ہم نادان بچپن میں کھوئے اپنی ہر ضرورت پوری کر رہے تھے ہمیں اس عمر میں کیا معلوم کہ ابو جی کیسے روپیہ پیسہ کماتے ہیں ۔۔
سب تایا جی اور چچا جان صاحب حیثیت تھے مگر میرے بابا بیماری کے سبب کمزور تھے زیادہ سخت کام نہیں کر سکتے تھے۔۔ اس لیے روزانہ کا فروٹ کا کام کرتے اور رات کو ایک جیب میں پیسے لے کر گھر آ جاتے کھانا کھاتے اور پیسوں کی گنتی کرنے کے لیے بیٹھتے تاکہ دیکھا جائے بچت کتنی ہوئی اور بچوں کے ارمان پورے کرنے کے لیے پیسے ہوں گے یا نہیں۔۔۔
جیسے ہی ابو جی نے پیسے گننے شروع کرتے میں اور بڑی آپا ساتھ بیٹھ کر مدد کرتے۔ ایک دفعہ تو کافی پیسے دیکھ کر خوش ہو جاتے کہ آج کتنے زیادہ پیسے ہیں ابو کے پاس۔۔باپ تو اپنی بیٹی پر ہر خوشی وار دیتا ہے۔۔
صبح جاتے ہوئے ابو جی کھلے پیسے یعنی سکے کپ میں رکھ جاتے جو ہمیں امی جی سکول جاتے دیتی تھیں ۔۔بڑی آپا کو 5 روپے ملتے تھے مجھے اور بھائی کو دو، دو روپے۔۔ وہ پیسے بھی ہم بہت خوشی سے خرچ کیا کرتے تھے۔۔
ابو جی نے ہماری ہر خوشی پوری کی۔ خوشی کے موقع پر کسی چیز کی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔ امی جی بہت کم خرچ کرتی تھیں شاید وہ سمجھتی تھیں کہ ابو کی جیب میں موجود سارے پیسے کھانے کیلئے نہیں بلکہ کسی کی امانت ہیں۔۔
دادی جان ہمارے پاس رہتی تھیں اس لیے عید کے موقع پر سب چاچو اکٹھے ہو جاتے تھے اور سبھی عیدی دیتے تھے۔ ابو جی کے پاس جیب میں موجود سکے کم ہوتے تھے ہم چھ بہن بھائی اور باقی سب کزنز مل کر زیادہ ہو جاتے تھے۔سبھی نے دیکھنا کہ اب دیکھو شفیق کیسے پورا کرتا ہے بچوں کو۔ بابا جانی کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی اور کہتے کہ میں سارے سکے آسمان کی طرف پھینکوں گا جس کے ہاتھ میں جتنے آ گئے وہ اس کے۔ سبھی اپنے اپنے اٹھا لینا۔ جیسے ہی آسمان کی طرف پیسے جاتے سب مل کر اٹھا لیتے اور سبھی بچے بہت خوش ہوتے اور دادی جان نے کہنا ایک منٹ میں سب بچوں کو خوش کر دیا۔
خوشیاں باٹنے والے اور ہمارے گھر کے محافظ ہمیں یتیمی میں بہت جلد چھوڑ گئے۔۔
ان کا اس دنیا سے چھوڑ کے چلے جانا ہمارے لیے کسی بہت بڑے سانحے سے کم نہ تھا۔۔ ماں کے سر سے سرتاج کا سایہ اور بچوں کے سر سے سایہ شفقت ۔۔۔۔۔
27 مئی 2014 کو میری تائی امی وفات پا گئیں جو سب سے بہت پیار کرتی تھیں۔سبھی ان کے غم میں مبتلا تھے 28 مئی کو جو کہ اگلے ہی دن ابو جی سب کو ناشتہ کروا رہے تھے کہ اچانک دل کی درد شروع ہوئی وہاں پر موجود لوگوں سے کہہ کر آ گئے کہ میں تھوڑی دیر تک آیا باقی بعد میں کروں گا۔۔
جیسے ہی گھر آئے بڑی آپا کام میں مصروف تھی اور میں لیٹی تھی۔ ابو جی کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھے کہنے لگے سائیڈ پہ ہو جاؤ ابو جی کی آنکھیں مکمل سفید تھیں میں چونکہ چھوٹی تھی تبھی ڈر گئی اور تائی امی کے جانے کا غم بھی تھا مجھ سے بولا نہیں گیا جلد ہی آپی کو آواز لگائی کہ ابو کو پتہ نہیں کیا ہوا امی جی دوڑ کر آئیں۔ابو جی کا رنگ سفید پڑ چکا تھا قے شروع ہو گئی تھی امی جی نے کہا کہ جلدی سے ہمسائے والے انکل کو بولو کہ گاڑی نکالیں۔اماں تو ابو جی کو لے کر چلی گئیں مگر آنکھوں میں ابو کی حالت تھی۔ پھر سوچا ٹھیک ہو جائیں گے۔ واللہ کیا خبر تھی کہ بابا آج کے بعد کبھی نہیں آئیں گے۔ ڈاکٹر جواب دیتے گئے امی جی کی گود میں سر رکھے ابو مسلسل استغفار اور کلمہ پڑھتے جارہے تھے اور امی جی سر میں ہاتھ پھیرتی جا رہی تھیں۔ جیسے ہی شہر میں پہنچے ہسپتال داخل کیا چاچو بھی پہنچ گئے چاچو اپنے شہر کے مشہور حکیم تھے۔ واقفیت کی وجہ سے جلد علاج شروع ہو گیا ڈاکٹر نے بولا کہ آپ بھائی کو ملتان لے جائیں۔ امی جی امید لگائے اپنے رب سے باہر بیٹھی دعا میں مصروف تھی پتہ چلا کہ ملتان جانا ہے تو تیار ہو گئیں مگر چاچو جی نے ڈاکٹر کو بولا کہ مشکل ہی پہنچ پائیں بھائی۔۔۔۔
ابو جی مسلسل کلمہ پڑھ رہے تھے دعائیں کر رہے تھے۔ اللہ سے محبت کرنے والے تھے اور ساری زندگی اپنی ماں کی خدمت کرنے والے ۔۔
چاچو ابو جی کے پاس ہوئے شاید سانس رک رہی تھی چچا جی کہتے کہ میں نے کلمہ پڑھا اور بھائی نے فوراً کلمہ پڑھتے ہی آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔وہ آپ نے خالق حقیقی سے جا ملے مگر امی جی کو نہیں بتایا کہ وہ ایسی جگہ چل دیے ہیں کہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
امی جی ملتان جانے کے لیے تیار تھیں ایمبولینس میں ابو جی کو لٹایا اور امی جی ساتھ بیٹھ گئیں۔جس شوہر کو ایک امید کے ساتھ لائی تھی وہ اب بس چند ساعتوں میں ماضی بن گیا تھا۔۔
ملتان کی بجائے جب گاڑی نے اپنے شہر کا رخ کیا تو امی جی حیران ہو گئیں کہ جانا ملتان ہے اور جا کہاں رہے ہیں۔چاچو جی
انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے لگے۔
ہائے میرے اللہ کیا سما ہو گا۔ میری ماں کے دل کا کیا حال ہو گا کہ انکا سربراہ انکے گھر کا بادشاہ اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔۔۔۔۔
میں اور بہن دعا میں مصروف تھی فون کیا کہ ابو کیسے ہیں؟ گاڑی والے انکل کہتے وہ فوت ہوگئے۔۔
جیسے ہی آواز کان میں پڑی آسمان تاریک ہوتا نظر آیا۔ اللہ یہ کیا کر دیا میرے بابا اب نہیں رہے۔ کیوں نہیں رہے؟سب کے بابا ہیں میرے کیوں نہیں؟؟
چھوٹا بھائی 4 سال کا تھا وہ میت کے پاس بیٹھا مسلسل کہہ رہا تھا اب ابو جارہے ہیں میں موٹر سائیکل پر جا کر لے آؤں گا۔۔۔
مگر وہ کیا سمجھتا پھول کہ اب ابو جی کبھی نہیں آئیں گے۔۔۔
ہماری زندگی ایک گھنٹے کے اندر یتیمی میں بدل کر رہ گئی ابو جی ماضی بن گئے۔۔۔
مگر ابو جی بہت یاد آتے ہیں ہر عید پر اب بہت پیسے مل جاتے ہیں مگر خوشی نہیں ملتی۔۔اب تو یہی بول کے سبھی دے دیتے ہیں کہ یتیم ہیں کمانے والا نہیں ۔۔۔
میں کہتی ہوں دنیا کی ساری دولتیں لے لی جائیں مگر ابو واپس آجائیں واللہ ہر دن عید سا لگے۔۔۔
باپ بہت بڑا تحفہ ہے رب کا۔ اللہ کے لیے اس تحفہ کی قدر کر لیں جب یہ تحفہ یہ پھول مرجھا جاتے ہیں ناااا پھر کوئی خوشی سکھ نہیں دیتی ۔۔۔
ہر تہوار آ جاتا ہے مگر بچھڑے ہوئے نہیں آتے اور نہ ان سے وابستہ خوشیاں۔۔۔۔۔۔۔
ممکن اگر ہوتا کسی کو عمر لگا دینا
میں زندگی کی ہر سانس اپنے بابا کے نام لکھ دیتی