دنیا میں جب سے بجلی کا آغازہوا ہے، تب سے لوگ بجلی کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ بجلی کے بغیرایک لمحہ گزارنا مشکل ہوجاتا ہے. جب بجلی بند ہوتی ہے تو انسان کی یہ حالت ہوتی ہے جیسے وہ دنیا میں نہیں جنگل میں رہ رہا ہے. سر کے اوپرآسمان، پاؤں کے نیچے زمین، دائیں بائیں درخت، چرند پرند اور جانورملے ہوں. اس ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ انسان بجلی کے ساتھ چل رہا ہے. بجلی کے بغیر ایک سانس بھی نہیں گزار سکتا ہے.
پاکستان میں بجلی کا بحران پچھلی ڈیڑھ دہائیوں سے چلا آ رہا ہے. دنوں کے حساب بجلی غائب رہتی ہے، پھربھی پاکستان کی قوم کی ہمت ہے کہ زندگی ہنس کھیل کرگزار رہی ہے، جب برداشت سے باہرمعاملہ ہوجائے تو گھروں سے باہرنکل کراحتجاج کے نام پراپنی بھڑاس نکال دیتے ہیں، پھراپنے اپنے گھروں کو واپسی کرلیتے ہیں، اس معاملے کے ذمہ داران عوام کو امید کا دلاسہ دلا کر پھر سے خواب غفلت کی نیند میں مدحوش ہوجاتے ہیں، عوام امید کے سہارے صرف راہ تکتی ہے اور صبرکرکے وقت گزارتی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوجاتی ہے، جو لوگ مالدار ہوتے ہیں وہ بجلی حاصل کرنے کے دوسرے طریقے استعمال کرلیتے ہیں، جولوگ صرف گزارے کی زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں وہ صرف گزارا ہی کرتے ہیں.
پاکستان میں بجلی جانے کا دور2007 سے شروع ہوا تھا، جو2021 یعنی تاحال جاری ہے. پاکستان میں انرجی کے بحران کی وجہ بننے کے مختلف پہلو ہیں. 2001 سے ابھی تک پاکستان مختلف عالمی مسائل کا شکار ہے. کبھی بیرونی جنگ میں فریق بن کراپنا نقصان کروایا ہے، کبھی بیرونی پاپندیاں لگی ہیں، آئی ایم ایف جیسے ادارے کی کڑکی میں پھنسایا گیا ہے، دہشت گردی کے نام سے شروع ہونے والی خانہ جنگی نے پاکستان کومعاشی طورپربہت نقصان پہنچایا ہے، 2008 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی تھی، سیاسی حوالے سے مضبوط لوگ ہیں، اپنے دورحکومت میں اس جماعت کے ذمہ داروں نے سوائے اپنے پیٹ پالنے کے کوئی کام نہیں کیا تھا، اپنے 5 سال کے دورحکومت میں انرجی کے حوالے سے کوئی مضبوط پالیسی نہیں بنا سکے، انرجی کے نظام کوچلانے کیلئے ان کے پاس ریونیونا ہونے کے برابرتھا، حکومتی تعلقات والے فیکٹریوں کے مالک بجلی کا بل ہی نہیں دیتے تھے، ٹیکس چھوٹ چل رہی تھی، کرپشن عروج پرکی جا رہی تھی، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، جس کا جو دل چاہتا تھا وہ کرتا تھا، اداروں کی حالت ابترسے ابترہوتی گئی تھی، معیشت کو چلانے کیلئے اس حکومت نے ٹیکس ہی بڑھاۓ تھے، نوبت یہاں تک آگئی کہ ادارہ کی نجاکاری کرنا پڑ گئی تھی، حکومتی ذمہ داروں میں انرجی کے مسائل کو حل کرنے کیلیئے شعورہی نہیں تھا، پاکستان کے وسائل کو استعمال کرنے کی بجائے امریکہ سے 300 ملین ڈالرکا قرضہ لے لیا گیا تھا، پھر بھی انرجی کے مسائل پرقابو نہیں پا سکی تھی، وقت پراس حکومت سے کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تھا، آئی ایم ایف سے قرضہ لے کرنظام چلایا جا رہا تھا، اس دورحکومت میں ذمہ داراس قابل بھی نہیں تھے کہ اپنے وسائل کو بروئے کارلایا جا سکے، جی ڈی پی 4 فیصد تک آگئی تھی، پاکستان کی انڈسٹریز کومکمل بند کردیا گیا تھا، انڈسٹریز کے بند ہونے سے عوام بے روزگارہوگئی تھی، اس دورحکومت میں بجلی کا شارٹ فال 8500 میگاواٹ تک پہنچ گیا تھا جو کہ بجلی کی ضرورت کا 40 فیصد تھا، انرجی کی پیداوارکو بڑھانے کیلئے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا تھا، باہر سے قرضہ لے کرادارے کے معاملات چلائے جاتے تھے، ادارے کی آمدن صرف درمیانے طبقہ کے لوگوں سے ہی آتی تھی.
2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو اس وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ 12 گھنٹے شہروں میں، 16 گھنٹے دیہاتوں میں ہوتی تھی. شروع میں تو ان پرجوں تک نا رینگی.عوام مشکلات سے دوچار سراپہ احتجاج تھی. کوئی سننے والا نہیں تھا. 2 سالہ حکومت کے بعد ان کو ہوش آنا شروع ہوگیا تھا. نئی پالیسیاں بنانے کا آغاز ہوا. اس حکومت نے انرجی کے مسائل حل کرنے کیلئے 2 پالیسیاں بنائیں. ایک یہ کہ نادہندگی کے آدھے پیسے دے دیے جائیں. دوسرا یہ کہ انرجی کی نئی پالیسی دے دی جائے. اس دورحکومت میں 260 بلین روپے انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹس کو گردشی قرضے کی مد میں دیے گئے تھے. اس وقت شارٹ فال 6000 میگاواٹ تک پہنچ گیا تھا۔ قرضہ ادا کرنے سے 1700 میگاواٹ بجلی شامل کی گئی تھی۔ کچھ نئے منصوبوں سے پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 22500 میگاواٹ تک پہنچ گئی تھی۔ اس دور حکومت ریونیو نہیں تھا۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کی شرح بہت کم تھی۔ قرضوں سے نظام چلایا جا رہا تھا۔ قرضے لے کرقرضہ دینے سے بجلی کی بندش کا مسئلہ حل تو ہوگیا تھا لیکن مستقل حل نہیں تھا. بظاہریہ لگتا تھا کہ بجلی مسئلہ مستقل حل ہوگیا ہے. فیکٹریوں کے مالک بل دینے کی بجائے ذمہ داروں کی جیب گرم کرتے تھے. کئی کئی سالوں سے کروڑوں روپے کے بقایا جات پائے جاتے ہیں. ذمہ داروں کواس کی پرواہ تک نا تھی. انکے اکاؤنٹس میں وقت پرکرپشن کا پیسہ پہنچ جاتا تھا.
وعدوں کے پل باندھنے والے 2018 میں پاکستان کے حکمران بنے. پی ٹی آئی کی حکومت کے ذمہ دار جو اپنی غلطیاں بھی پچھلوں پر ڈالنے کے ماہرہیں. جنہوں نے پاکستان کی ترقی کی قسم کھائی ہے. اس دورحکومت میں بھی بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی ہے. اس لوڈشیڈنگ سے تو پیپلز پارٹی کا دور تازہ ہوگیا ہے. موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خطے میں موسم خشک اورگرم ہوگیا ہے. اس کے ساتھ ہی عوام پربجلی کی لوڈشیڈنگ کا پہاڑ توڑدیا گیا ہے. حکومتی ذمہ داروں سے حالات حاضرہ پر بات کی تو حسب معمول پچھلے ادوار پرمعاملہ ڈال دیا گیا ہے. اس وقت ملک کے شہری علاقوں میں 10 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے. دیہی علاقوں میں 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے. اس حکومت میں کچھ عقلمند لوگ بھی ہیں جنہوں نے اصل معاملے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے. پاکستان میں اس وقت 6500 میگاواٹ کا شارٹ فال آیا ہے. انرجی کے وزیرکا کہنا ہے کہ اس وقت ڈیمانڈ 24100 میگاواٹ ہے. پیداوار 22600 میگاواٹ ہے. 1500 میگاواٹ کا مسئلہ آ رہا ہے. یعنی اس حکومت کہ 3 سال میں کوئی ایسی ترقی نہیں کی گئی جس سے انرجی کے مسائل پرقابو پایا جاسکے. حالانکہ اس حکومت نے مختلف ڈیموں کی تعمیرکا کام اپنے دورحکومت کے آغاز میں ہی کردیا تھا. ٹیکس ریونیو بھی بہترہوگیا ہے. فیکٹریوں والے بھی بل ادا کررہے ہیں. یہاں تک کہ حالیہ لوڈشیڈنگ کے دوران عالمی بینک کی رپورٹ میں توانائی کے شعبہ میں اصلاحات لانے پرعالمی بینک نے حکومت وقت کی تعریف کی ہے، یہ حکومت حالات بہتر کرنے کا دعویٰ تو کرتی ہے مگرکرنہیں پا رہی ہے. عوام بیچاری حکومتی ذمہ داروں کا منہ تکتی رہ جاتی ہے. حکومت وقت سے گزارش ہے کہ جلد سے جلد بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کرلیا جائے.
@its_usamaislam








