ارشاد باری تعالی ہے کہ
زمین و آسماں ، ہر جگہ پر خدا کی بادشاہت ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے۔( سورۃ الشوریٰ ۴۹)
آج میرے قلم پہ لفظوں کا قحط طاری ہے ، احساسات ششدر اور دل و دماغ میں حشر برپا ہے ۔ نوک قلم ایک ماں کا، پورے میانوالی کا یا شائد پورے پاکستان کا رنج و الم الفاظ میں سمونے سے قاصر ہے
کتنی اندوہناک اور لرزا دینے والی خبر ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
ایک ننھی پری عورتوں کے عالمی دن سے صرف ایک دن پہلے اپنے ہی سفاک باپ کے ہاتھوں رب کی جنت میں واپس چلی گئی ۔ ایک ننھا سا گوشت پوست اور اس قدر بربریت کیا کیا ازیت نا جھیلی ہوگی اس ننھی جان نے یا شائد اس کی سانس تو گولی چلنے کی آواز سے ہی سہم کے ساکن ہوگئ ہوگی۔ سوچتی ہوں تو روح لرز جاتی ہے کہ کیا وہ معصوم کلی رب کی بارگاہ میں سوال نہیں کرے گی کہ میرے مالک مجھے کہاں بھیجا تھا؟میں نے کیا خطا کی تھی ؟ باپ تو تپتے صحرا میں چھاؤں کا نام ہے نا پھر میرے اپنے ہی باپ نے مجھ میں اتنی آگ کیوں انڈیل دی۔
یہ خبر یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ افسردگی سی افسردگی ہے ۔ تکلیف زیادہ ہے کہ غصہ ، دل اظہار کرنے سے قاصر ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس واقعے سے عرب کے دور جہالت کی یاد تازہ ہوگئی ۔
جہاں بیٹیوں کو زندہ ہوتے ہی دفنا دیا جاتا تھا۔
وہ اسلام جس نے بیٹیوں کو رحمت خداوندی کا درجہ دیا آج اسی اسلام کے نام پہ حاصل کردہ ملک میں کبھی نئے کپڑے مانگنے کی پاداش میں تین تین بیٹیوں کو موت کا لباس اوڑھادیا جاتا ہے تو کبھی بیٹا نا پیدا ہونے کی جرم میں معصوم سات روزہ کلی کی سانسیں کھینچ لی جاتی ہیں لیکن کوئ قیامت برپا نہیں ہوتی ، نا کہیں بجلی گرتی ہے اور نا آسمان ہی ٹوٹتا ہے ، کیوں بے بس و لاچار ماں کی آہیں عرش و فرش کو نہیں ہلاتی
آخر کیوں فرشی منصفوں کا ضمیر نہیں جاگتا؟ کیوں ایسے ظالم کرداروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا
کب تک آخر کب تک ریاست اس گھناؤنے واقعات کو نجی مسائل کہہ کر درگزر کرتی رہے گی کب تک حوا کی بیٹی نا کردہ جرائم کی سزا پاتی رہے گی
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُوں لکھ لکھ مارے بین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
یہ پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے عورت ہمیشہ مرد کی نام نہاد انا و غیرت اور ظلم و بر بریت کا نشانہ بنتی رہی ہے اس ننھی پری کے سفاک باپ جیسے کردار دنیا میں ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ دل کو اطمینان دینے والا احساس یہ ہے کہ اس سے کئی سو گنا زیادہ تعداد ان مردوں کی ہے جن کے لیے ان کی بیٹیاں ان کے جگر کا ٹکڑا ہیں۔
ہمارے اطراف موجود ملنے جلنے والوں رشتے داروں دوستوں میں اکثریت ایسے گھرانوں کی ہے جہاں باپ کی جان ان کی بیٹیوں کا وجود ہے ۔ جہاں بیٹیاں کو رحمت سمجھ کر ان کو مان سمان اور پیار سے پالا جاتا ہے ۔
اور ایسے دل دہلا دینے والے واقعات ہر معاشرے میں قابل نفرین سمجھے جاتے ہیں کسی بھی معاشرے میں ایک سفاک باپ کے ایسے سفاک عمل کے پیچھے صرف غلط معاشرتی سوچ ہی نہیں کبھی کھی ذہنی مرض ، نفسیاتی الجھنیں اور کئی دوسرے عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں ۔
ورنہ حقیقی صورتحال کیا ہے اس کو جاننا مشکل نہیں۔ آج صرف سوشل میڈیا کی ہی مثال لیں کسی بھی صنفی امتیاز کے بنا مردوں کی اکثریت اس واقعے کی مذمت کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار کررہے ہیں ۔
کیونکہ ایک باپ کے لئے بیٹیاں تو خالق کی اتنی پیاری مخلوق ہے جن کے وجود کا جن کے ہونے کا صرف شکرانہ ہی ادا کیا جاسکتا ہے ۔
اللہ سب کے گھر کی رحمتوں کو سلامت رکھے ۔ آمین
اس خاندان کے معتبر بزرگوں سے بہتے اشکوں کے ساتھ التماس ھے کہ اس کیس ک مدعی صلح یا رشوت کے پیسوں کی بجائے اس ننھی کلی کو سامنے رکھے اگر آج ایک بیٹی کا خون بخش دو گے یا خون بہا لے کر چپ کر جاؤ گے تو کل دوسری اور تیسری بیٹی کی قبر کھودنے کے لئیے بھی تیار رہنا
یہ کیس ایک خاندان یا ایک ماں کا نہیں پورے پاکستان کا ہے ،یہ کیس ہر لاچار و مجبور ماں کا ہے جو نام نہاد غیرت مند مردوں کے ہاتھوں روز قتل ہوتی ہیں یہ کیس ہر ہر اس بنت حوا کہ ہے جس کا جرم اس دنیا میں سانس لینا ہے ۔ اس کیس کا نتیجہ ایسے تمام گھناؤنے کرداروں کے لئیے ایک پیغام ایک واضح نشان عبرت ہونا چاہیئے ۔
@_Ujala_R