امت مسلمہ کواسرائیل سے دشمنی کا درس دینے والےمحمد بن سلمان خود اسرائیل کے خفیہ دورے کرتے رہے : اسرائیلی حکام کا دعویٰ

0
31

یروشلم : امت مسلمہ کواسرائیل سے دشمنی کا درس دینے والےمحمد بن سلمان خود اسرائیل کے خفیہ دورے کرتے رہے ، اسرائیلی سیکورٹی حکام کا دعویٰ ،اطلاعات کے مطابق ایک سابق اسرائیلی سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اب تک تل ابیب کے متعدد دورے کر چکے ہیں۔جبکہ وہ خود اورسعودی عرب دنیا بھرکے مسلمانوں کواسرائیل کے خلاف اکسانے اوردشمنی کا درس دینے میں ہمیشہ پہل کرتے رہے

 

محمد بن سلمان کے اسرائیل کے خفیہ دورں کے حوالے سے اس سے پہلے بھی خبریں آتی رہیں لیکن اب توخود اسرائیلی حکام نے ان دوروں کی تصدیق کردی ہے یہی وجہ ہےکہ "غیر ملکی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان نے متعدد بار تل ابیب کی دھوپ سے لطف اندوز ہوچکے ہیں۔”

اسرائیلی سیکورٹی افسرکہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں جب بن سلمان کے اسرائیل کے دوروں کا انکشاف کیا جارہا ہے۔ اکتوبر 2017 میں بھی ایک اسرائیلی عہدیدار نے تصدیق کی تھی کہ بن سلمان نے اسرائیل کا سفر کیا تھا اور وہاں کے اعلی حکام سے مشاورت کی تھی۔

ذرائع کے مطابق یہ دورے اس وقت ہوئے جب سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بظاہر باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اور جب سے پہلے ہی یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ حالیہ برسوں میں اسرائیلی اور سعودی حکومتیں ایک دوسرے کی طرف جھکاؤ کر رہی ہیں ان حالات مین محمد بن سلمان کی طرف سے اسرائیل کے خفیہ دوروں کی بازگشت نے ایک بارپھرسعودی عرب کے اسرائیل سے بیک ڈوررابطوں کی تصدیق کردی ہے

محمد بن سلمان کے اسرائیل کے خفیہ دوروں کے حوالے سے پریس ٹی وی نے لکھا ہے کہ مذکورہ اسرائیلی سیکورٹی افسر کہتےہیں‌کہ اگرچہ اسرائیل اور ریاض ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں بہت زیادہ خواہش کا اظہارکرتے رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود بھی بڑی تعداد میں عرب شہری اوردنیا کے دوسرے خطوں میں آباد مسلمان فلسطین کی سرزمین پراسرائیل کے قبضے اورفلسطینیوں پر مظالم کی وجہ سے تل ابیب حکومت کے ساتھ تعلقات کے قیام کے سختی سے مخالف ہیں

ذرائع کے مطابق پچھلے ہفتے سابق اسرائیلی سکیورٹی اہلکار نے دعوی کیا کہ عرب ممالک کا خیال ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا فلسطینی عوام کے مقصد سے زیادہ اہم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ماہ بحرین اور متحدہ عرب امارات نے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے توسط سے معاہدے کیے

اس اسرائیلی سیکورٹی افسرنے یہ دعوی بھی کیا ہےکہ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکمران کچھ تحفظات رکھتے ہیں لیکن وہ بھی اسرائیل سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتے

ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ابوظہبی میں ہونے والے سہ فریقی اسرائیل متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے اجلاس میں حصہ لینے کے لئے سعودی عرب پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

 

 

اسرائیلی سیکورٹی افسر کہتے ہیں کہ اسرائیل کے موساد کی جاسوس ایجنسی کے سربراہ نے ستمبر کے ایک انٹرویو میں اشارہ کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ امن معاہدوں کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے سعودی عرب خط میں ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلقات کو باضابطہ بنانے کا اقدام طویل عرصے تک "رابطوں کو انتہائی نازک انداز میں منظم کیا گیا تھا۔”جمعہ کے روز اسرائیلی اخبار معاریو نے انکشاف کیا کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات کو تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کے لئے قائل کرنے میں سعودی عرب نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معمول کے معاہدے ریاض کی "رضامندی” اور "قریبی مشاورت” کے بغیر ممکن نہیں تھے۔

 

 

 

یادرہے کہ اس سے پہلے عرب اسرائیل تعلقات کے ایک ماہرتجزیہ نگارصحافی اوردفاعی امورپردسترس رکھنے والے اسرائیلی صحافی شمعون آران بھی محمد بن سلمان کے خفیہ اسرائیل کے دورے کا انکشاف کرچکے ہیں ،

 

 

 

وہ کہتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ عرب حکمران اپنے عوام کو بے وقوف بنارہےہیں ایک طرف اسرائیل کے خفیہ دورے اورخفیہ ملاقاتیں تودوسری طرف اپنی عوام کواسرائیل کے خلاف اکسا رہے ہیں

 

یہ بھی یاد رہے کہ ایک اوراسرائیلی جوکہ سفارتی امور کے ماہرجانے جاتے ہیں اورعرب اسرائیل تعلقات پرگہری نظررکھتے ہیں انہوں نے بھی محمد بن سلمان کے خفیہ دوروں سے متعلق اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا ہےکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اسرائیل کے خفیہ دورے کرتے ہیں اوراسرائیل سے کئی خفیہ معاہدے بھی کرچکے ہیں جن کےبارے میں سعودی عوام کے بے خبررکھا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ محمد بن سلمان کئی بار سعودی عرب کا خفیہ دورہ کرچکے ہیں اوروہاں اسرائیلی حکام سے ان کی مفید ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں

 

ادھرصحافت کی دنیا میں بہت بڑا نام رکھنے والے معتبر میڈیا گروپ الجزیرہ نے بھی لکھا ہےکہ محمد بن سلمان اشاروں اشاروں‌میں اسرائیل کوتسلیم کرنے کااظہارکرچکے ہیں

Leave a reply