شانِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما تحریر: سعدیہ بنت خورشید

0
59

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:-
"جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو انکا نام حمزہ رکھا اور جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو انکا نام چچا کے نام پر جعفر رکھا۔
مجھے رسول اللہﷺ نے بلایا اور فرمایا: مجھے یہ دونوں نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس آپ علیہ السلام نے ان دونوں کا نام حسن و حسین رضی اللہ عنہما رکھا”

یہ حدیث مبارکہ میری نظر سے گزری تو مجھے انتہائی تجسس ہوا کہ جن کے نام عرشِ بریں سے منتخب ہو کر آئے ہوں انکی شان کیا ہوگی۔ میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں کی شان کے بارے مزید پڑھنے کے لیے کتب احادیث کھولتی ہوں۔ صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب الحسن و الحسین میرے سامنے آتا ہے۔
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
” میں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھائے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں، میرے ماں باپ ان پر فدا ہوں یہ نبی کریمﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی سے انکی شباہت نہیں ملتی اور سیدنا علی زبان صدیق سے یہ کلمات سن کر ہنس رہے تھے۔”

سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"جو چاہے کہ گردن، چہرہ اور بالوں کے لحاظ سے رسول اللہﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ کسی کو دیکھے تو وہ حسن کو دیکھ لے اور جو چاہے کہ گردن سے ٹخنوں تک رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ کسی کو دیکھے تو وہ حسین کو دیکھ لے.”

سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے دونوں بیٹے سرور کائناتﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ ہیں۔ اور میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم خود سے مشابہت رکھنے والے ان دو بچوں سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آپکے کندھے پر سوار ہوتے ہیں تو سرور کونین فرماتے ہیں
"یا اللہ! مجھے اس سے محبت ہے تو بھی اس سے محبت فرما”

لپٹتا ، چمٹتا کبھی گود میں گرتا

یہ تو پھول تھا جو آغوش رسالت میں نکھرتا

حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی شان کے کیا کہنے:

میرے آقا ﷺ اکثر انکو اپنے مبارک کندھوں پر بٹھاتے
اور آپ ﷺ فرماتے "یہ سردار ہیں”
” حسن و حسین میرے پھول ہیں.”
"حسن و حسین شہزادے ہیں۔”

میں کتبِ احادیث کے سنہری اوراق کو پلٹتی جاتی ہوں، پڑھتی جاتی ہوں کہ صحیح سنن الترمذی کی ایک حدیث سامنے آتی یے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ دعوت پر جاتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ گلی میں کھیل رہے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مبارک ہاتھوں کو فرط محبت سے اگے بڑھا کر پھیلا لیتے ہیں اور انکو صدرِ اطہر کے ساتھ لگا لیتے ہیں۔ علی کے لخت جگر کے چہرے پہ جناب رسالت مآب کے لب مبارک لگتے ہیں اور میرے آقا ﷺکی زبان سے پھول جھڑنے لگتے ہیں: حسین مجھ سے ہے، میں حسین سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔”

"حسین منی و أنا من حسین”
(حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں)

حدیث مبارکہ کے اس جملہ کو میں بار بار دہراتی جاتی ہوں ” حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں” کہ شاید مجھ پر رحمۃ للعالمین کے کہے ہوئے اس جملے کا مطلب واضح ہو جائے۔
بار بار غور کرنے پر بات سمجھ میں آئی کہ جیسے عموماً جس سے محبت کی جاتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
بالکل یہی مراد میرے حضور ﷺ کی ہے کہ ہے حسین مجھ سے ہے۔ یعنی کہ حسین میرا جزو ہے، حسین میرا حصہ ہے، بلاشبہ مجھ میں اور حسین میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اس حدیثِ مبارکہ کا معنیٰ و مطلب واضح ہوجانے پر فرط محبت سے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے کہ پوری کائنات کے سردار فرما رہے ہیں

"احب اللہ من أحب حسینا”
وہ کتنا عظیم شخص ہوگا جو فاطمہ کے بیٹے سے محبت کرکے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی دعا کا حقدار ٹھہرا ہوگا۔
(اللھم اجعل منھم)

حضرت محمد کریم ﷺ نے دس صحابہ کرام کو ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دے دی۔
ابوبکر فی الجنہ
عمر فی الجنہ
عثمان فی الجنہ
(الخ۔۔۔۔۔!!!)

لیکن میں قربان جاؤں جب باری شہزادوں کی آئی تو مقام بڑھ گیا، زاویہ نگاہ بدل گیا
صرف اسی پر بس نہیں کہ حسن و حسین جنتی ہیں
بلکہ فرمایا:

"حسن و حسین جنتیوں کے سردار ہیں.”
ان شہزادوں کی عظمت و رفعت، شان و مقام، بلند مرتبے پر میرے باپ قربان ۔۔ !!

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"اللہ کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لاتے ہیں
حسن ابن علی، آپ ﷺ کے کندھے مبارک پر تشریف فرما ہیں اور ان کا لعاب آپ ﷺ کے کندھے پر بہہ رہا تھا۔”

کیسا خوبصورت منظر ہے۔۔۔!!
جس کو رب تعالیٰ نے دونوں جہانوں کا سردار قرار دیا اس کے کندھے پر جس کا لعاب گرتا رہا ہوگا وہ بھی کتنا عظیم ہوگا۔

جناب حسن رضی اللہ عنہ سینہ مبارک پر پیشاب کردیتے ہیں۔
صحابہ پکڑنے کے لئے دوڑتے چلے آتے ہیں
فرمایا: رہنے دو، کوئی بات نہیں میرا بیٹا ہے۔۔۔ اس جگہ پر پانی بہا دیتے ہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جناب حسنین کریمین کا کسی بھی وقت آنا ناگوار نہ گزرتا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان شہزادوں کو دیکھ کر ہنستے، مسکراتے اور خوش ہوا کرتے تھے۔

جن کی وجہ سے خوش ہوا کرتے تھے، ان کی وجہ سے ہی ایک دن کالی کملی والے میرے آقا رونے لگے۔
زار و قطار روتے چلے جاتے ہیں
دونوں جہانوں کے سردار کی آنکھیں آنسو بہاتی چلی جاتی ہیں۔

سیدنا علی پوچھتے ہیں
میرے ماں باپ آپ پر قربان…!!
آقا کیا ہوا۔۔۔؟
فرمایا: جبرئیل علیہ السلام مجھے خبر دے کے گئے ہیں کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل کردیا جائے گا۔ اور کہا: اپ چاہیں تو آپ کو وہاں کی مٹی سونگھا سکتا ہوں۔۔۔
فرمایا؛ ہاں! جبرئیل ہاتھ بڑھاتے ہیں اور مٹھی بھر مٹی مجھے پکڑا دیتے ہیں۔
اسی وجہ سے آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور آنسو بہہ نکلے۔

اس ضمن میں کئی احادیث میری نظروں کے سامنے سے گزرتی چلی جاتی ہیں۔۔

میرے آقا روتے چلے جاتے ہیں

اپنے شہزادے کے قتل ہونے کی خبر سن کر کیوں نہ روتے… !!

آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے ہیں کہ کالی کملی والے آقا کو ان بد بختوں کی وجہ سے تکلیف پہنچی۔۔۔

منظر بدلتا ہے۔۔۔۔!!!

حضرت حسن، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کر کے کوفہ چھوڑ دیتے ہیں۔۔
اور بنی ہاشم سمیت مدینہ طیبہ میں قیام پذیر ہو جاتے ہیں

زندگی کے 47 سال گزارنے کے بعد آپ کی موت کا وقت آ جاتا ہے ۔۔۔
آپ رضی اللہ عنہ کو اہلِ غدر زہر دے دیتے ہیں۔۔
نبی کے نواسے کی تکلیف بڑھتی جاتی ہے۔۔۔
شدید گھبراہٹ محسوس ہونے لگتی یے
کہنے والے نے کہا اے ابو محمد۔۔۔!!!
یہ گھبراہٹ کیسی۔۔۔؟؟
یہ تکلیف کیسی۔۔۔؟؟
ابھی جسم سے روح جدا ہو جائے گی تو سامنے
اپنے نانا جناب رسول اللہ ﷺ، اپنے والدین( علی و فاطمہ)، اپنی نانی خدیجہ، اپنے ماموں، اپنے چچا، اپنی خالائوں کو سامنے پائیں گے۔۔۔
یہ سنتے ہی تکلیف دور ہو جاتی ہے، گھبراہٹ ختم ہو جاتی ہے۔

جنازے کا وقت آتا ہے۔۔۔
اہلِ علم اور نیک لوگوں کے جنازے میں ہزاروں، لاکھوں افراد جمع ہوتے ہیں۔
لیکن!
یہ جنازہ تو فاطمہ کے لخت جگر کا ہے
یہ جنازہ تو آقائے کائنات کے شہزادے کا ہے
جہاں تک نگاہ جاتی ہے لوگ ہی لوگ نظر آتے ہیں
یوں محسوس ہوتا کہ لوگوں کا وسیع سمندر یہاں امڈ آیا ہے۔
مدینہ اپنی بے انتہا وسعتوں کے باوجود تنگئ داماں کا شکار ہوجاتا ہے۔۔۔

منظر ایک بار پھر بدلتا ہے۔۔۔۔!!!

جناب رسالت مآب کی پیشینگوئی کا وقت ہوا چاہتا ہے
کوفی آپکو خطوط بھیج کے بلاتے ہیں
جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں سمیت جاتے ہیں

کوفہ پہنچتے ہیں کہ کوفی اپنی باتوں سے مکر جاتے ہیں
اور آپ ابن زیاد کے لشکر کے ہاتھوں شہید ہوجاتے ہیں۔۔

وہ وقت آگیا جس کی وجہ سے سید المرسلین کی عیون سے زاروقطار آنسو مبارک نکلے تھے

وہ لمحہ آن پہنچا جس کی وجہ سے پھول سا چہرہ بھی مر جھا گیا تھا

ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اس واقعہ کی خبر پہنچتی ہے تو فرماتی ہیں:

"کیا انہوں نے ایسا کیا ہے۔۔۔؟
اللہ تعالیٰ ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے! یہ کہہ کر بیہوش ہو جاتی ہیں”

فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جگر گوشے کی شہادت پر جِن بھی رونے لگتے ہیں۔۔
ابن مرجانہ اس چہرے پر لاٹھی مارتا ہے جو نبی ﷺ کے مشابہ تھا
جس چہرے پر سرور کونین کے لب مبارک لگتے رہے۔۔ !!

ابن مرجانہ پر تا قیامت لعنت برستی رہے گی

ڈنکے کی چوٹ پہ ظالم کو برا کہتی ہوں

ہر اس شخص پر لعنت ہے جس کا سیدنا و محبوبنا و امامنا الحسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت میں کسی قسم کا حصہ تھا
یا الٰہی۔۔۔۔!! ہمارے دلوں کو اہلِ بیت کی محبت سے منور فرما اور روز قیامت ہمیں ان کے ساتھ اٹھانا ۔۔۔ ( آمین)

Tagsblog

Leave a reply