صوبائی وزیر شکیل خان کی برطرفی: گڈ گورننس کمیٹی کی رپورٹ میں الزامات کی حقیقت بے نقاب

0
58

پشاور: سابق صوبائی وزیر شکیل خان کو کابینہ سے ہٹانے کے معاملے پر گڈ گورننس کمیٹی کی رپورٹ نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ رپورٹ میں متعدد الزامات کی حقیقت بے نقاب کی گئی ہے، جس نے صوبے کی سیاسی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔ گڈ گورننس کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سابق صوبائی وزیر شکیل خان کے سیکرٹری مواصلات پر عائد الزامات درست نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سیکرٹری مواصلات پر عائد الزامات کی حقیقت یہ ہے کہ شکیل خان نے خود کئی پراجیکٹس کے لیے فنڈز کی منظوری دی تھی۔ اس کے برعکس یہ تاثر دیا گیا تھا کہ سیکرٹری مواصلات نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ شکیل خان نے اپنے محکمے میں 30 ملازمین کو غیر قانونی طور پر ترقی دی۔ یہ ترقیات بغیر کسی میرٹ اور قانونی تقاضے کے خلاف دی گئیں، جس پر کمیٹی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مزید برآں، شکیل خان پر ایک اعلیٰ افسر سے رشوت طلب کرنے کا بھی الزام ہے، اور کمیٹی کے مطابق، اس الزام کے ثبوت بھی موجود ہیں۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ جب شکیل خان کے خلاف الزامات کے ثبوت سامنے آئے تو وہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کے لیے گئے۔ اس ملاقات کی وجوہات اور اس کے پس منظر پر بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پر عائد الزامات کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، اور ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔
کمیٹی کی رپورٹ نے وفاقی وزیر امیر مقام کی کمپنی کو نوازنے کے الزامات کو بھی بے بنیاد قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، امیر مقام کی کمپنی کو دیا گیا پراجیکٹ ورلڈ بینک کا ہے، اور اس کی منظوری بھی عالمی بینک کی جانب سے دی گئی ہے، نہ کہ صوبائی یا وفاقی حکومت کی طرف سے۔ مزید یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ پراجیکٹ تین سال پرانا ہے اور اس کی لاگت 30 ملین ڈالر تھی، جو اب بھی وہی ہے۔ اس طرح کے حقائق کی روشنی میں امیر مقام کے خلاف لگائے گئے الزامات بھی بے بنیاد ہیں۔رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے بعد گڈ گورننس کمیٹی نے اسے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو پیش کر دیا ہے۔ اب اس رپورٹ کے نتائج اور سفارشات پر عمل درآمد یا مزید تحقیقات کا فیصلہ وزیراعلیٰ کے پاس ہے۔ صوبائی سیاسی حلقوں میں اس رپورٹ کے اثرات پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں حکومت کے اندر مزید تبدیلیاں بھی ممکن ہیں۔یہ رپورٹ خیبر پختونخوا کی سیاست میں ایک نئے تنازعے کو جنم دے سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب صوبے میں سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ نے رپورٹ میں دی گئی سفارشات پر سخت اقدامات کیے تو یہ حکومت کی شفافیت اور گڈ گورننس کے حوالے سے ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔ تاہم، اگر معاملہ سیاسی جوڑ توڑ کی نذر ہوا، تو یہ حکومت کے لیے ایک اور بحران کا باعث بن سکتا ہے۔اس رپورٹ نے صوبے کی سیاسی فضا میں بے چینی پیدا کر دی ہے، اور آنے والے دنوں میں مزید سیاسی پیش رفت متوقع ہے۔

Leave a reply