لندن: بورس جانسن کاترک النسل ہونا یالاک ڈاون کی خلاف ورزی:استعفے کادباوبھارتی نژاش رشی سوناک متوقع وزیراعظم اطلاعات کے مطابق برطانوی وزیراعظم بوریس جانسن کی مشکلیں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ سال 2020 میں کورونا وبا کے دوران لگے لاک ڈاون میں ڈاوننگ اسٹریٹ کے گارڈن میں پارٹی کرنے کی وجہ سے اب ااستعفے کا دباو بنتا بڑھتا جارہا ہے۔ اپوزیشن جانسن سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس درمیان برطانیہ کی ایک اہم سٹہ کمپنی ’بیٹ فیئر‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ بحران سے نبردآزما بوریس جانسن جلد ہی وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ اس کے بعد ہندوستانی نژاد وزیر مالیات رشی سونک (Rishi Sunak) اُں کی جگہ لے سکتے ہیں۔
بیٹ فیئر نے کہا ہے کہ مئی 2020 میں کوویڈ-19 لاک ڈاون کے دوران وزیراعظم کے دفتر ڈاوننگ اسٹریٹ میں ہوئی ڈرنک پارٹی کو لے کر ہوئے انکشافات کے پیش نظر 57 سالہ جانسن پر نہ صرف اپوزیشن پارٹیوں بلکہ اُن کی خود کی پارٹی کی جانب سے بھی استعفیٰ دینے کا دباو بڑھ رہا ہے۔
ادھر معتبر ذرائع کے مطابق جانسن کے مستعفی ہوجانے کی صورت میں رشی سونک کے وزیراعظم بننے کے سب سے زیادہ امکانات ہیں۔ اس کے بعد لز ٹوز (وزیر خارجہ) اور پھر مائیکل گوو( کابینی وزیر) کا نمبر آتا ہے۔ حالانکہ اس دوڑ میں سابق وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ، ہندوستان نژاد کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل، وزیر صحت ساجد جاوید اور کابینی وزیر اولیور ڈاوڈین بھی شامل ہیں۔
استعفے کی ممکنہ وجوہات:
جانسن کے پرائیوٹ چیف سکریٹری مارٹن رینالڈس کی جانب سے مبینہ طو رپر کئی لوگوں کو پارٹی کے لئے میل بھیجا گیا تھا۔ حالانکہ اُس وقت ملک میں لاک ڈاون لگایا ہوا تھا اور عوامی تقریبات منعقد کرنے پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ جانسن نے اب اس معاملے میں افسوس ظاہر کرتے ہوئے پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ وہ دعوت میں شامل ہوئے تھے۔ جانسن نے کہا کہ اُنہیں لگتا تھا کہ یہ انعقاد اُن کے کام سے متعلق پروگراموں کے دائرے میں آتا ہے۔
دوسری جو وجہ اس وقت سوشل میڈیا پربیان کی جارہی ہے اس کے مطابق جب سے بورس جانسن اقتدار میں آئے ہیںاور ان کے اباواجداد کے مسلمان ہونے کی خبریں پھیلی ہیں ، انتہا پسند عیسائی اور دیگرمسلمان مخالف قوتیں ان کوتعصب اور تن نظری کی عینک سے دیکھتے ہیںاور ان کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے
اس مہم کا اصل مقصد بورس جانسن کو کسی نہ کسی طریقے سے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا جانا ہے،
یہ یاد رہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم منتخب بورس جانسن کے پڑدادا ترکی النسل اور تاجر تھے اور ان کا نام علی کمال تھے جو ایک صحافی اور لبرل سیاست دان تھے۔ بورس جانسن کے پڑدادا علی کمال کے والدین بھی مسلمان تھے اور سلطنت عثمانیہ میں اہم مقام رکھتے تھے۔
بورس جانسن کے پڑدادا علی کمال ابتدائی تعلیم استنبول میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جنیوا اور پیرس میں مقیم رہے جہاں سے انھوں نے سیاسیات میں ڈگری مکمل کی اور اسی دوران سوئس خاتون سے شادی کی جن سے دو بچے سلمیٰ اور عثمان علی ہوئے۔
عثمان علی کی پیدائش کے فوری بعد اہلیہ کے انتقال پر دونوں بچوں کی پرورش برطانیہ میں مقیم بچوں کی نانی مارگریٹ برون نے کی جب کہ علی کمال نے استنبول میں دوسری خاتون سے شادی کرلی تھی۔ ننھیال میں دونوں بچوں کے نام تبدیل کردیئے گئے۔
غیر مسلم خاندان میں پرورش کے باعث عثمان علی بعد میں ولفریڈ عثمان جانسن میں تبدیل ہوگئے جن کی شادی ایرین وِلس نامی فرانسیسی خاتون سے ہوئی، ان کے تین بچے اسٹینلے جانسن ( بورس کے والد)، پیٹر جانسن (چچا) اور ہِلری جانسن (پھوپھی) ہوئے۔
بوریس جانسن نے مانگی تھی معافی:
وزیراعظم کے سرکاری قیام گاہ 10 ڈاوننگ اسٹریٹ کے گارڈن میں منعقد پارٹی کے لئے ای میل سے بھیجے گئے دعوے نامے کے میڈیا میں آنے کے بعد سے جانسن پر اپوزیشن لیبر پارٹی (Labor Party) کے ساتھ ہی اُن کی کنزرویٹیو پارٹی کے ارکان کی جانب سے بھی انتہائی دباو ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں افسوس ظاہر کرتے ہوئےپہلی بار مانا کہ وہ پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔
مگر
مخالفین کا مطالبہ:
معافی کے باوجود بورس جانسن کے مخالفین استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں اور اس میں بھارتی لابی زیادہ متحریک ہے ، یہ وجہ ہے کہ بھارتی لابی بورس کے استعفے کی صورت میں ہندوستانی نژاد وزیر مالیات رشی سونک وزیراعظم لانے کے سرگرم ہے اور بھارتی لابی کی کامیاب مہم کے نتیجے میں یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہندوستانی نژاد وزیر مالیات رشی سونک وزیراعظم ہوں گے








