اسلام آباد میں کیفے کینولی سول کے مالکان کی ایک وائرل ویڈیو پر ٹویٹر اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا ویب سائٹس پر #BoycottCannoli پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔

باغی ٹی وی :سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں ، مالکان عملے کے ممبر کی انگریزی بولنے کی مہارت کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ کیفے کی مالکان دو خواتین کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ "لہذا ، یہ ہمارے مینیجر ہیں جو ہمارے ساتھ نو سال رہے ہیں۔ اور یہ وہ خوبصورت انگریزی ہے جو وہ بولتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کی ہم نے ادائیگی کی ہے … اور بہت اچھی تنخواہ ، آپ کو یاد رکھنا ،”.

اطلاعات کے مطابق ، ویڈیو ریستوران کے انسٹاگرام پیج پر پوسٹ کی گئی تھی لیکن کچھ ہی منٹوں میں اسے ہٹا دیا گیا تاہم سوشل میڈیا پر چیزوں کو ختم کرنا مشکل ہے تاہم اس ویڈیو کو ٹویٹر اور فیس بک پر فوڈ گروپس پر بائیکاٹ کے ٹرینڈ کو اپناتے ہوئے اپ لوڈ کیا گیا اوراس ٹرینڈ میں حصہ لیتے ہوئے لوگوں نے ان خواتین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا-


مظفر گڑھ نامی ٹویٹر اکاؤنٹ نے اس ٹرینڈ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کینولی ریسٹورنٹ کے مالکان کے لئے کیا یہ انگریزی کافی ہے؟ آپ لوگ اپنے ملازمین کے ساتھ احترام سے بات کرنا سیکھیں-


ایک صاعف نے لکھا کہ کینولی کیفے اسلام آباد ایف 11 کی ان خواتین مالکان کے لئے جنہوں نے اس شخص اویس کا مذاق بنایا اور اسے اپنی انگریزی کا FUN بنایا ، اس کو WORKPLACE HARASSMENT کہا جاتا ہے اور آپ کے دو مراعات یافتہ برجر نے جو کچھ کیا وہ سب سے زیادہ ڈسگسٹنگ چیز ہے۔ انگریزی ساکھ کا پیمانہ نہیں ہے !


ایک صارف نے لکھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوآبادیات ہماری ذہنیت کے ساتھ ساتھ ملک کے عوام کے ساتھ ہمارے رویوں میں بہت گہری ہے۔
https://twitter.com/SyedaSays__/status/1352208501314117633?s=20
ایک صارف نے لکھا کہ نسلی غلاموں سے بدتر ذہنیت رکھنے والی ایلیٹ یعنی نوآبادیاتی دور کی گلی سڑی باقیات کو اس ایک ویڈیو نے بیچ چوراہے جوتے پڑوا دیئے۔۔۔ اب یقینا” بہت سے لوگوں کو سمجھ آجائے گی کہ انگلش صرف ایک بولی ہے کسی کی قابلیت جانچنے کا پیمانہ نہیں!


ایک صارف نے لکھا کہ یہ خواتین پڑھی لکھی جاہل کی کامل مثال ہیں کسی اچھے کالج سے گریجویشن اور اچھے اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مینرڈ اور تعلیم یافتہ ہیں!
https://twitter.com/WajedMinhaas/status/1352208480166420486?s=20


ایک صارف نے لکھا کہ پاکستان کو یہ آزادی آج سے زیادہ 73 سال پہلے ملی ہے مجھے آج افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے لیکن پھر بھی آج بھی یہاں گورے کا رنگ باقی ہے۔ ہم لفظی طور پر آزاد نہیں ہیں استعمار اب بھی ہم میں موجود ہے۔ جو شخص انگریزی اچھی طرح سے بولتا ہے وہ پڑھا لکھا ، شریف آدمی سمجھا جاتا ہے-


ایک صارف نے لکھا کہ جب تک انگلش بولنا قابلیت کا معیار ہوگا ایسے نیچ حرکتیں ہوتی رہیں گی-


ایک صارف نے لکھا کہ ہر گھٹیا واقعے پر سوچتے ہیں اس سے گھٹیا اور کیا ہوگا !!! لیکن پھر کچھ لوگ ہماری اس سوچ پر پانی پھیر دیتے ہیں –

Shares: