سیاست سے بہتر پکوڑے کی دکان،اختر مینگل اسمبلی سے مستعفی

akhtar mengal

بی این کے سربراہ، رکن قومی اسمبلی اختر مینگل نے اسمبلی رکنیت سےمستعفی ہونے کا اعلان کر دیا

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ میں آج اسمبلی سے استعفیٰ کا اعلان کرتا ہوں،میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا، بلوچستان کے حالات دیکھ کر فیصلہ کر کے آیا تھا، میں ریاست، صدر اور وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں، پورے نظام پر عدم اعتماد کر رہا ہوں،بلوچستان کے معاملے پرلوگوں کی دلچسپی نہیں، میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرسکا، جب بھی اس مسئلے پربات کرو تو بلیک آؤٹ کردیا جاتا ہے، ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے، 65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہونگے ان سے معافی مانگتا ہوں ،پاکستان میں سیاست سے بہتر ہے پکوڑے کی دکان لگالوں ،یہ نظام بلوچستان کا قاتل ہے،یہاں پر لوگ اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو ان کو بھی نہیں بولنے دیا جاتا، آج جو آئین کی بات کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں آئین کے مطابق بات کرے گا ان سے بات کریں گے، کیا اسمبلی آئین کے مطابق نہیں؟ ہم تو اسمبلی میں بات کر رہے تھے، ہمیں اسمبلی میں بات نہیں کرنے دیتے، ایپکس کمیٹی کی میٹنگ کوئٹہ میں بلائی گئی، ہمیں بھی دعوت دی گئی، 75سالوں میں ہم آپ کو سمجھا رہے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آرہا، بلوچستان کے حالات کی نشاندہی میں کئی سال پہلے کر چکا ہوں لیکن کسی کو پرواہ نہیں،خود اس ریاست سے، اداروں سے اور سیاسی جماعتوں سے میں مایوس ہو چکا ہوں، محمود خان اچکزئی اس امید سے ہیں کہ شاید ان کو اس پارلیمنٹ سے ان کو کچھ ملے گا، ہم نے اس ملک کے ہر ادارے کے دروازے کھٹکٹائے لیکن ہماری بات نا سنی گئی، ہم کہاں جائیں اور کس کا دروازہ بجائیں، آئین کے بنانے والے نا خود کو بچا سکے نا آئین کو بچا سکے، 4 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اختر مینگل کے پاس آجاتے ہیں،جب ضرورت ہوتی ہے تو محمود خان اچکزئی کو تحفظ آئین کا چئیرمین بنا دیا جاتا ہے،

بعد ازاں ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ میرے والد سردار عطاء اللہ مینگل کی تیسری برسی کے موقع پر، میں انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بطور رکن پارلیمنٹ استعفیٰ دیتا ہوں۔ میں، اختر مینگل، رکن قومی اسمبلی، بطور رکن پارلیمنٹ اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہوں۔بلوچستان کی موجودہ صورتحال نے مجھے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمارا صوبہ مسلسل اس ایوان کی جانب سے نظرانداز ہوتا رہا ہے۔ ہر روز، ہمیں دیوار سے مزید لگایا جاتا ہے، جس سے ہمیں اپنے کردار پر نظرثانی کرنے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ اس اسمبلی میں بلوچستان کے عوام کی حقیقی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے، میری طرح کی آوازیں بھی کوئی معنی خیز تبدیلی نہیں لا سکتیں۔یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہمارے احتجاج یا اظہار رائے کو ہمیشہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے لوگوں کو یا تو خاموش کر دیا جاتا ہے، غدار قرار دیا جاتا ہے، یا بدتر، قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں، میں اس صلاحیت میں مزید کام کرنا ناممکن سمجھتا ہوں، کیونکہ یہاں میری موجودگی میرے نمائندہ عوام کے لیے کوئی فائدہ مند نہیں رہی۔لہٰذا، میں درخواست کرتا ہوں کہ میرے استعفے کو قبول کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ بلوچستان کی حفاظت فرمائے اور اسے خوشحال کرے۔

اختر مینگل این اے 256 خضدار سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے،اختر مینگل گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں، اختر مینگل عمران خان کی حکومت کا بھی حصہ رہ چکے ہیں.

بجٹ میں تمباکو پر ٹیکس بڑھایا جاتا تو معیشت بہتر ہوتی، شارق خان

تمباکو پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں 30 فیصد اضافہ کیا جائے، ملک عمران

حکومت بچوں کو سگریٹ نوشی سے بچانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے، شارق خان

تمباکو جیسی مصنوعات صحت کی خرابی اور پیداواری نقصان کا سبب بنتی ہیں

تمباکو سے پاک پاکستان…اک امید

تمباکو سے پاک پاکستان، آئیے،سگریٹ نوشی ترک کریں

تمباکو نشہ نہیں موت کی گولی، بس میں ہوتا تو پابندی لگا دیتا، مرتضیٰ سولنگی

ماہرین صحت اور سماجی کارکنوں کا ماڈرن تمباکو مصنوعات پر پابندی کا مطالبہ

تمباکو نوشی کے خلاف مہم کا دائرہ وسیع کریں گے،شارق خان

Comments are closed.