سپریم کورٹ، حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ ہٹانےپر پرویز الہیٰ کو نوٹس جاری
سپریم کورٹ، آئینی بینچ کے سامنے حمزہ شہباز کو وزیر اعلی سے ہٹانے کا معاملے پر سماعت ہوئی
سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز نظر ثانی پر پرویز الہی کو نوٹس جاری کردیا،آئینی بینچ نے ایڈیںشنل اٹارنی جنرل و دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کردیا،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے نظر ثانی پر سماعت کی
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آڈیوز لیک کمیشن پر وفاقی حکومت کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایت لے کر آگاہ کرنے کا حکم دے دیا۔جسٹس امین الدین ک سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے آڈیوز لیک کمیشن کیس کی سماعت کی۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ کیا آڈیو لیک کمیشن لائیو ایشو ہے، کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ ہو چکے ہیں جبکہ کمیشن کے ایک اور رکن سپریم کورٹ کے جج بن چکے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے حکومت سے ہدایات کے لیے مہلت دے دیں، معلوم کرنے دیں کیا حکومت نیا کمیشن بنانا چاہتی ہے، آڈیو لیک کے معاملے پر قانونی نقطہ تو موجود ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر نیا کمیشن بنتا ہے تو یہ مقدمہ تو غیر مؤثر ہو جائے گا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کوئٹہ میں بچے کے اغواء کا نوٹس لے لیا۔عدالت نے کوئٹہ سے اغواء بچے کی بازیابی پر بھی رپورٹ طلب کرلی۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کوئٹہ میں چھ دن سے ایک اغوا بچہ نہیں ڈھونڈا جا رہا۔ایک بچہ کے اغوا پر پورا صوبہ بند ہے حکومت کو فکر نہیں۔یہ ملک میں ہو کیا رہا ہے ؟
سپریم کورٹ،مراد علی شاہ کیخلاف نا اہلی کی درخواست خارج
مراد علی شاہ نا اہلی کیس،سپریم کورٹ نے مراد علی شاہ کیخلاف نا اہلی کی درخواست خارج کر دی ،عدالت نے عدم پیروی پر نا اہلی کی درخواست خارج کی،محمود اختر نقوی نے نا اہلی کی درخواست دائر کی تھی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی
ٹریفک حادثات میں اموات کے خلاف درخواست،سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کر دیا
سپریم کورٹ،ملک کی مرکزی شاہراوں پر ہیوی ٹریفک کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی، درخواست گزار عباس آفریدی نے کہا کہ روزانہ 70 لوگ ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ لوگ لٹک لٹک کر کیوں سفر کرتے ہیں، عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست منظور کر لی، عدالت نے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیے،عدالت نے این ایچ اے کو بھی نوٹس جاری کردیا،کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دی گئی،جی ٹی روڈز پر اوور لوڈڈ ٹرکس کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی
ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے صوابدیدی اختیارات کیخلاف آئینی درخواست قابل سماعت قرار
سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بنچ نے میاں دائود ایڈووکیٹ کی آئینی درخواست پر اعتراض ختم کر دیا،عدالت نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ سمیت تمام ہائیکورٹس کے رجسٹرارز کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا،چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی جوابات جمع کرانے کا حکم دے دیا گیا،جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بنچ نے میاں دائود ایڈووکیٹ کی آئینی درخواست پر سماعت کی ،میاں دائود ایڈووکیٹ ویڈیو لنک پر سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے پیش ہوئے، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ مفاد عامہ کا اہم معاملہ ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ صرف لاہور ہائیکورٹ کی بات کر رہے ہیں، باقی ہائیکورٹس میں شاید ایسا نہ ہوا ہو، میاں داؤد ایڈوکیٹ نے کہا کہ میں نے بطور حوالہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے اختیارات کے ناجائز استعمال کے تمام نوٹیفکشنز ساتھ لگائے ہیں،اعلی عدلیہ کے چیف جسٹس نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے عدلیہ کی ساکھ مجروح کر دی،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چلیں اس مسئلے کو دیکھتے ہیں، میاں داؤد ایڈوکیٹ نے کہا کہ اب ہم اس مسئلے کو دیکھیں اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے،
میاں دائود ایڈووکیٹ نے مفاد عامہ کے تحت سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر رکھی تھی،درخواست میں پانچ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز، چاروں صوبوں او روفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے،درخواست میں کہا گیاکہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان صوابدیدای اختیارات کا غیرآئینی استعمال کر تے ہیں،ہائیکورٹس کے اکثر چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے قبل سرکاری خزانہ بادشاہوں کی طرح لٹا تے ہیں، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی نے ریٹائرمنٹ سے ایک ماہ قبل اختیارات کے ناجائز استعمال بدترین مثالیں قائم کیں، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بہترین کارکردگی کے نام پر سینکڑوں ملازمین کو غیرقانونی ایڈوانس انکریمنٹس دیئے،سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے افسروں اور اہلکاروں میں 6 جولائی2021 سے دو ایڈوانس انکریمنٹس دیئے گئے،عدالتی تاریخ میں آج تک کسی چیف جسٹس کے سٹاف کو اڑھائی برس کی مدت پر مشتمل ایڈوانس انکریمنٹ دینے کی مثال نہیں ملتی، سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل دیگر سینکڑوں ملازمین کو غیرقانونی طور پر ایڈوانس انکریمنٹ دیئے گئے،ایڈوانس انکریمنٹ تبادلہ شدہ رجسٹرار ہائیکورٹ اور دو ماہ قبل تعینات ہونیوالے رجسٹرار ہائیکورٹ کو بھی دیئے گئےسابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے ریڈر اور انکی اہلیہ سینئر سول جج کو 4 سال کی تعلیمی چھٹی بمعہ تنخواہ دینے کی منظوری دی گئی،سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے دیگر متعدد ملازمین کو بھی بغیر کسی قانونی جواز اور اختیار کے چھ چھ ماہ، ایک ایک سال کی چھٹیوں کی منظوری دی،ریڈر اور انکی اہلیہ کی تعلیمی چھٹی کیلئے کسی یونیورسٹی کا ریکارڈ اور قانون تقاضہ فائل کے ریکارڈ پر موجود نہیں ہے،لاہور ہائیکورٹ کے 50 سے زائد ملازمین کی سزائیں ایک دستخط سے ختم کرنے کے درجنوں نوٹیفکیشنز ایک ہی دن جاری کئے گئے، صوابدیدی اختیارات کے تحت سزائیں ختم کرنا قانون تحت قائم سروس ٹربیونلز کو غیرفعال کرنے کے مترادف ہے، لاہور ہائیکورٹ کے دو ڈپٹی رجسٹرار شہباز انور اور شہباز اشرف کی سزائیں ختم کے انہیں بھی ایڈوانس انکریمنٹس دیئے گئے،دونوں ڈپٹی رجسٹرارز کو سزائیں ختم کرانے کیلئے خود ہی اپنا نیا انکوائری افسر مقرر کرنے کی اجازت دی گئی، ایڈوانس انکریمنٹس کے علاوہ دونوں ڈپٹی رجسٹرارز کی سزائیں ختم کر کےانہیں ترقیاں بھی دیدی گئیں،اب لاہور ہائیکورٹ کا کوئی نیا افسر دونوں ڈپٹی رجسٹرار کی فائلوں کی انکوائری کا ذمہ اٹھانے کو تیار نہیں ،دونوں ڈپٹی رجسٹرارز کی فائلیں ایک برانچ سے دوسری برانچ گھوم رہی ہیں، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے زیادہ تر نوٹیفکیشنز ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل 6مارچ کو جاری کئے گئے، ہائیکورٹس کے ملازمین کے ساتھ اقربا پروری کا سلوک کرکے عدلیہ کو بدنام کیا گیا، ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے صوبائی اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کا حکم دیا جائے، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی ریٹائرمنٹ سے 1 ماہ قبل جاری کئے گئے تمام نوٹیفکشنز کا عدالتی جائزہ لیا جائے،لاہور ہائیکورٹس کے افسران کو دی گئی ایڈوانس انکریمنٹس غیرقانونی قرار دے کر واپس سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے،