حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی و سینیٹ میں پیش کرنے کے لئے تیار کی گئی مجوزہ آئینی ترامیم کا مسودہ باغی ٹی وی نے حاصل کر لیا،
آئینی ترمیمی بل میں مجموعی طور پر 54 تجاویز شامل ہیں،عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم سے متعلق بل حکمران اتحاد کی بھرپور کوششوں کے باوجود اتوار کو بھی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا تھا، اس ضمن میں حکومت بل پاس کروانے کے لئے اپنے نمبر پورے کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے
مجوزہ آئینی ترامیم میں 54 تجاویز شامل ہیں، آئین کی63،51،175،187، اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی، آئین کے آرٹیکل63 میں ترمیم کی جائیں گی، منحرف اراکین کے ووٹ سے متعلق آرٹیکل 63 میں ترمیم بھی شامل ہے، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائےگی،آئین کے آرٹیکل 181 میں بھی ترمیم کیے جانےکا امکان ہے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت نہیں بڑھائی جائےگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں بھیجا جاسکےگا، چیف جسٹس پاکستان کا تقرر سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز کے پینل سے ہوگا، حکومت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس لگائےگی، آئینی عدالت کے باقی 4 ججز بھی حکومت تعینات کرےگی،آئینی عدالت کے فیصلے پراپیل آئینی عدالت میں سنی جائے گی، آئین کے آرٹیکل 181 میں بھی ترمیم کیے جانےکا امکان ہے،آئینی عدالت میں آرٹیکل 184،185،186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوگی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو اکٹھا کیا جائےگا۔
آئین کا آرٹیکل 181 ججزکی عارضی تقرری سے متعلق ہے۔آئین کا آرٹیکل 184 از خود نوٹس اختیار سے متعلق ہے۔آئین کا آرٹیکل 185 فیصلوں پر اپیل سے متعلق ہے۔آئین کا آرٹیکل 186 صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے مشاورتی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔آئین کا آرٹیکل 63 رکن پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلق ہے۔آئین کا آرٹیکل 63 اے ڈی فیکشن کلاز ہے اورپارٹی سربراہ کے اختیار سے متعلق ہے۔آئین کا آرٹیکل 51 مخصوص نشستوں سے متعلق ہے۔آئین کا آرٹیکل 175 سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی تشکیل اور ججز تقرریوں سے متعلق ہے۔آئین کا آرٹیکل 175 اے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز کی تعیناتی سے متعلق ہے۔آئین کا آرٹیکل187 مکمل انصاف سے متعلق ہے۔
آئینی ترمیمی بل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جا رہی ہے،چونکہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طریقے سے اور اس کے بعد ظاہر ہونے والے مقاصد کے لیے مزید ترمیم کرنا مناسب ہے۔ یہ ایکٹ آئین (چھبیسویں ترمیم) ایکٹ، 2024 کہلائے گا۔یہ ایکٹ فوراً نافذ ہو جائے گا۔آئین کے نئے آرٹیکل 9A کا اندراج۔- آئین میں، آرٹیکل 9 کے بعد، مندرجہ ذیل نئی دفعہ 9A کو داخل کیا جائے گا، یعنی:-"9A. صاف ستھرا اور صحت مند ماحول، ہر شخص کو صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کا حق حاصل ہوگا۔آرٹیکل 17 میں ترمیم، لفظ سپریم کورٹ کو وفاقی آئینی عدالت سے تبدیل کردیا جائے۔حکومت پاکستان کے خلاف کام کرنے والی جماعت کا معاملہ سپریم کورٹ کی بجائے وفاقی آئینی عدالت کو بھیجے گی۔تیسری ترمیم آرٹیکل 48: وزیراعظم، کابینہ کی صدر کو ایڈوئز کسی عدالت اور ٹربیونل میں چیلنج نہیں ہو سکے گی۔وضاحت: آرٹیکل 48 میں سے ایڈوائز میں سے وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کو نکال دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 63 اے میں تین ترامیم تجویز، ووٹ شمار ہوگا، ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ وفاقی آئینی عدالت میں جائے گا،آرٹیکل 68: وفاقی آئینی عدالت کے جج کے خلاف پارلیمان میں بات نہیں ہو سکتی۔ آرٹیکل 78: آئینی عدالت میں جمع ہونے والی رقم وفاقی حکومت کو جائے گی۔ آرٹیکل 81: تین ترامیم شامل، لفظ وفاقی آئینی عدالت شامل کیا جائے۔ آرٹیکل 100: اٹارنی جنرل پاکستان وہ شخص تعینات ہوگا جو وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو۔آرٹیکل 111: ایڈوائزرز صوبائی اسمبلیوں اور کمیٹیوں کے اجلاس میں شریک ہوسکیں گے۔ آرٹیکل 114: صوبائی اسمبلی میں وفاقی آئینی عدالت کے ججز پر بات نہیں ہو سکے گی۔ آرٹیکل 165اے: انکم ٹیکس شق میں وفاقی آئینی عدالت کے الفاظ کا اضافہ ہوگا۔ آرٹیکل 175 اے: آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی اور ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ شامل ہے، جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی، وفاقی آئینی عدالت کا سربراہ چیئرپرسن ہو گا۔جوڈیشل کمیشن میں چیئرمین کے علاوہ 12 ارکان ہوں گے۔جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت کے دو ججز، چیف جسٹس سپریم کورٹ، سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔ وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہو گا۔ قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو، سینیٹ سے حکومت اور اپوزیشن کے دو نمائندے شامل ہوں گے۔سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ کمیشن کے چیئرپرسن ہوں گے۔ آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی کی سفارش اسپیکر کی نامزد کردہ 8 رکنی قومی اسمبلی کی کمیٹی کرے گی۔پہلی بار آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی صدر چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی مشاورت سے کریں گے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تعیناتی طریقہ کار میں تبدیلی کی جائے گی،چیف جسٹس سپریم کورٹ کا نام کمیٹی تین سینئر ترین ججز میں سے کرے گی۔ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی کا کمیشن سالانہ جائزہ لے گا۔ اگر کسی جج کر کارکردگی تسلی بخش نہیں تو وقت دیا جائے گا ورنہ کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ بھیجے گی۔آرٹیکل 175 بی میں ترمیم: چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی تعیناتی اور دائرہ کار،آرٹیکل 176 میں ترمیم: چیف جسٹس پاکستان کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کہا جائے گا۔ آرٹیکل 176اے کی شمولیت: دوہری شہریت کا مالک وفاقی آئینی عدالت کا جج نہیں ہو سکتا۔ آرٹیکل 177: سپریم کورٹ ججز کی اہلیت سے متعلق ہے۔ آرٹیکل 177 اے: چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کے حلف سے متعلق ہے۔ آرٹیکل 178اے: وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی۔آرٹیکل 179: چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہو گی۔ 179 اے، 179 بی: وفاقی آئینی عدالت کے جج کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کا جج صدر مملکت عارضی طور پر تعینات کریں گے۔آرٹیکل 182اے کی شمولیت: وفاقی آئینی عدالت اسلام آباد میں ہو گی۔ آرٹیکل 184: دو یا اس سے زیادہ حکومتوں کے درمیان تنازعہ وفاقی آئینی عدالت دیکھے گی۔
مفاد عامہ کے معاملات پر تمام مقدمات وفاقی آئینی عدالت سنے گی۔ مفاد عامہ کے تمام مقدمات سپریم کورٹ سے وفاقی آئینی عدالت منتقل ہو جائیں گے۔ 184 اے کی شمولیت: ہائی کورٹس کے آئینی معاملات پر فیصلے وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج ہو سکیں گے۔آرٹیکل 185: ہائیکورٹس کی اپیلیں سپریم کورٹ سنے گی، آئینی سوالات وفاقی آئینی عدالت سنے گی۔ آرٹیکل 186: صدرارتی ریفرنس پر سماعت آئینی عدالت کرے گی۔ آرٹیکل 186 اے: سپریم کورٹ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی مقدمہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائیکورٹ کو بھجوا سکے گی۔ وفاقی آئینی عدالت کسی بھی ہائی کورٹ کے سامنے معاملے کو کسی دوسری ہائیکورٹ یا خود کو منتقل کر سکتی ہے۔رٹیکل 187 میں ترمیم: وفاقی آئینی عدالت کسی بھی متعلقہ شخص کو طلب کر سکتی ہے۔آرٹیکل 188: وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کا اختیار رکھیں گی۔آرٹیکل 189: وفاقی آئینی عدالت کا کسی بھی قانونی اصول حکم نامہ سپریم کورٹ سمیت ساری عدالتوں پر بائنڈنگ ہو گا۔سپریم کورٹ کا قانونی اصول پر کوئی بھِی فیصلہ وفاقی آئینی عدالت پر بائنڈنگ نہیں ہو گا۔ آرٹیکل 190: تمام جوڈیشل اتھارٹیز وفاقی آئینی عدالت کی مدد کی پابند ہوں گی۔ آرِٹیکل 191: سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت اپنے قواعد و ضوابط بنائیں گے۔ آرٹیکل 192: ہائی کورٹس کے ججز کی تعداد کا تعین ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہو گا۔ آرٹیکل 193: ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، دوہری شہریت رکھنے والا ہائی کورٹ کا جج نہیں ہو سکتا۔ ہائیکورٹ جج کے لیے ہائیکورٹ وکالت کا کم از کم 15 سال کا تجربہ، 15 سال جوڈیشل آفس کا تجربہ ضروری قرار دیا گیا،آرٹیکل 199: ہائی کورٹ از خود آرڈر جاری نہیں کر سکے گی۔قومی سلامتی سے متعلقہ کسی شخص پر ہائی کورٹ حکم جاری نہیں کر سکے گی۔آرٹیکل 200: صدر مملکت جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر کسی جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر کر سکیں گے۔ آرٹیکل 202: ہائیکورٹ قواعد و ضوابط ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت بنائے جا سکیں گے۔ آرٹیکل 204: توہین عدالت میں وفاقی آئینی عدالت کو بھی شامل کرنے کی تجویز دی گئی، آرٹیکل 205: وفاقی آئینی عدالت کی تنخواہیں مقرر کرنے کو شامل کیا گیا ہے۔آرٹیکل 206: وفاقی آئینی عدالت کے جج کے استعفے کو شامل کیا گیا ہے۔آرٹیکل 207: جج آفس آف پرافٹ نہیں لے سکتا، وفاقی آئینی عدالت کو شامل کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 208: وفاقی آئینی عدالت کے افسران کی تعیناتیوں سے متعلق الفاظ کی شمولیت ہے،آرٹیکل 209: سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل میں تبدیلیاں، سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت، چیف جسٹس سپریم کورٹ، آئینی عدالت کا سینئر ترین جج، ہائی کورٹس کے دو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔ آرٹیکل 210: کسی شخص کو طلب کرنے کا کونسل کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کا اختیار ہو گا۔ آرٹیکل 215: چیف الیکشن کمشنریا الیکشن کمیشن کا کوئی ممبر نئی تعیناتیوں تک عہدوں پر برقرار رہیں گے۔ آرٹیکل 215 میں ون اے کا اضافہ: چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی اور سینیٹ کی اکثریتی قرار داد سے دوبارہ نئی ٹرم کے لیے تعینات ہو جائیں گے۔ آرٹیکل 239: آئینی ترمیم کے خلاف کسی عدالت کا کوئی حکم نامہ موثر نہیں ہو گا۔
آرٹیکل 243: مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتیوں، دوبارہ تعیناتیوں، ایکسٹیشن، مدت ملازمت پاک فوج کے قوانین کے مطابق ہوں گے اور انہیں دو تہائی اکثریت کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل 248: صدر، گورنرز کو آئین و قانون کے تحت قائم عدالتوں سے آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔رٹیکل 255: حلف سے متعلق وفاقی آئینی عدالت کے ججز کو شامل کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 259: صدارتی ایوارڈز میں سائنس و ٹیکنالوجی، ادویات، آرٹس اور پبلک سروس کا اضافہ، آرٹیکل 260: وفاقی آئینی عدالت کے الفاظ کا اضافہ،: شیڈول تین میں اضافہ: حلف نامے میں وفاقی آئینی عدالت کا حلف شامل ہے،شیڈول چار میں تبدیلی: کنٹونمنٹ ایریاز میں الفاظ لوکل ٹیکس، سیس، فیس، ٹول اور دیگر چارجز کو شامل کیا گیا ہے۔شیڈول پانچ میں ترمیم: وفاقی آئینی عدالت کے الفاظ کا اضافہ شامل ہے
[pdf-embedder url=”https://baaghitv.com/wp-content/uploads/2024/09/further-to-amend-the-Constitution-of-the-Islamic-Republic-of-Pakistan.pdf” title=”further to amend the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan”]
ہائیکورٹس اور وفاقی شرعی عدالت میں ججز کی تعیناتی کے لئے کمیشن ہو گا جس کے چیئرپرسن وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہوں گے،دو سینئر جج وفاقی آئینی عدالت کے کمیشن کے رکن ہوں گے،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سینئر جج، وفاقی وزیر قانون،اٹارنی جنرل بھی رکن ہوں گے،ایک سینئر ایڈووکیٹ یا ایک وکیل جس کی سپریم کورٹ میں کم از کم بیس سال کی پریکٹس ہووہ بھی رکن ہو گا ،سینیٹ اور قومی اسمبلی سے دودو اراکین بھی کمیشن کے رکن ہوں گے. ایک رکن حکومت اور ایک اپوززیشن کی طرف سے ہو گا، نامزدگی قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کریں گے،
"(2B) سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شق (2) میں کمیشن کے چیئرپرسن ہوں گے اور اس عدالت کے پانچ اگلے سینئر ترین جج اس کے ممبر ہوں گے۔ شق (2) کے پیراگراف (iv)، (v) (vi) اور (vii) میں کمیشن کے دیگر ارکان ہوں گے۔(xiii) شق (2B) کے بعد، جیسا کہ مذکورہ بالا داخل کیا گیا، درج ذیل نئی شق (2C)،داخل کیا جائے گا:”(2C) شق (1) یا شق (2) میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر، قومی اسمبلی کی کمیٹی کی سفارش پر، وفاقی آئینی عدالت کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کیا جائے گا۔ مذکورہ بالا کے لیے قومی اسمبلی کی کمیٹی تشکیل دی گئی۔جس کا مقصد، نامزد شخص کا نام وزیراعظم کو بھیجا جائے گا، وزیراعظم تقرری کے لیے اسے صدر کے پاس بھیجیں گے،بشرطیکہ وفاق کے پہلے چیف جسٹس آئینی عدالت کا تقرر صدر اعظم کے مشورے پر کرے گا۔
"(2D) قومی اسمبلی کی کمیٹی، اس کے بعد اس آرٹیکل میں کمیٹی کہلائے گی، قومی اسمبلی کے سپیکر کے نامزد کردہ آٹھ اراکین پر مشتمل ہوگی۔(2E) ہر پارلیمانی پارٹی کو، جہاں تک ممکن ہو، کمیٹی میں متناسب نمائندگی حاصل ہوگی۔(2F) کمیٹی، اپنی کل رکنیت کی اکثریت سے، متعلقہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے سات دنوں کے اندر نامزدگی بھیجے گی جیسا کہ اس آرٹیکل کی شق (2C) اور (3) میں فراہم کیا گیا ہے۔(2G) کمیشن یا کمیٹی کی طرف سے لیا گیا کوئی بھی اقدام یا فیصلہ صرف اس میں خالی جگہ ہونے یا اس کے کسی اجلاس سے کسی رکن کی غیر موجودگی کی بنیاد پر غلط یا سوالیہ نشان نہیں ہوگا۔(2H) کمیٹی کے اجلاس ان کیمرہ منعقد کیے جائیں گے اور اس کی کارروائی کا ریکارڈ رکھا جائے گا۔(21) آرٹیکل 68 کی دفعات کارروائی پر لاگو نہیں ہوں گی۔(2J) کمیٹی اپنے طریقہ کار کو منظم کرنے کے لیے قواعد بنا سکتی ہے۔ "(3) شق (1) یا شق (2) میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر، کمیٹی کی سفارش پر، تین سینئر ترین افراد میں سے کیا جائے گا۔
آئینی ترامیم،قومی اسمبلی،سینیٹ اجلاس آج،مولانا فضل الرحمان اہمیت اختیار کر گئے
عمران خان نے اشارہ کیا تو بنگلہ دیش کو بھول جاؤ گے،بیرسٹر گوہر کی دھمکی
ہوسکتا ہے جنرل فیض حمید اندر یہ گانا گا رہے ہوں کہ آ جا بالما تیرا انتظار ہے، خواجہ آصف
آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے نہیں، مخالفت کریں گے،عمر ایوب
قومی اسمبلی اجلاس شروع،بلاول کا خطاب،اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی
بل پیش کرنے سے پہلے کابینہ سے منظوری لازمی ہے،بیرسٹر گوہر
وفاقی حکومت کا علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کا منصوبہ
پارلیمنٹ کو کوئی بھی آئینی ترمیم کرنے کا اختیار ہے،احسن بھون
لاہور:پاکستان کوکلئیر ویلفیئر آرگنائزیشن کا پہلا باضابطہ اجلاس،اہم فیصلے کئے گئے
پیدائشی سماعت سے محروم بچوں کے کامیاب آپریشن کے بعد”پاکستان زندہ باد” کے نعرے
معذوری کا شکار طالبات کی ملی دارالاطفال گرلز ہائی سکول راجگڑھ آمد،خصوصی تقریب
صدر مملکت کسی بھی جج کو عہدے سے ہٹا سکتا ہے:
(7) وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کو عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا سوائے اس آرٹیکل کے فراہم کردہ۔(8) کونسل ایک ضابطہ اخلاق جاری کرے گی جس کا مشاہدہ وفاقی آئینی عدالت، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کریں گے۔کونسل کی طرف سے بنائے گئے قواعد کے تابع، کونسل کا ایک سیکرٹریٹ ہوگا جس کی سربراہی ایک سیکرٹری کرے گا اور اس میں ایسے دیگر افسران اور عملہ شامل ہوگا، جیسا کہ ضروری ہو۔”
آئین کے آرٹیکل 210 میں ترمیم۔ آئین میں، آرٹیکل میں(i)شق (1) میں، الفاظ "سپریم کورٹ” کے لیے جہاں کہیں بھی واقع ہو، الفاظ "وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ” کے متبادل ہوں گے۔ اور(ii)شق (2) میں، الفاظ "سپریم کورٹ” کے لیے "وفاقی آئینی عدالت، سپریم کورٹ” کی جگہ دی جائے گی۔آئین کے آرٹیکل 215 میں ترمیم۔ آئین میں، آرٹیکل میں(i)شق (1) میں(ا)موجودہ پہلی شرط کے بعد، مندرجہ ذیل نئی شرط ڈالی جائے گی:”مزید یہ کہ کمشنر اور ایک رکن اپنی میعاد ختم ہونے کے باوجود، جب تک اس کا جانشین دفتر میں داخل نہیں ہوتا اس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا:”؛ اورموجودہ دوسری شرط میں، لفظ "مزید” کے لیے لفظ "بھی” بدل دیا جائے گا۔شق (1) کے بعد، جیسا کہ مذکورہ بالا ترمیم کی گئی، درج ذیل نئی شق (1A) داخل کی جائے گی:”(1A) وہ شخص جو کمشنر کے عہدے پر فائز ہو یا،ایک رکن، ہر ایوان میں موجود اور ووٹ دینے والے ارکان کی اکثریت کے ووٹوں سے منظور کردہ قرارداد کے ذریعے،ایک اور مدت کے لیے اسی دفتر میں دوبارہ تعینات کیا گیا۔”آئین کے آرٹیکل 239 میں ترمیم۔ آئین میں، آرٹیکل میں 239، شق (5) کے لیے، درج ذیل کو تبدیل کیا جائے گا،
سپریم کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کے کسی بھی فیصلے کے باوجود،یا ہائی کورٹ، آئین کی کوئی شق یا اس میں کوئی ترمیم کسی بھی عدالت بشمول وفاقی آئینی عدالت یا ہائی کورٹ میں کسی بھی بنیاد پر سوال نہیں کیا جائے گا۔ اس کے برعکس کوئی بھی فیصلہ، حکم یا اعلان کوئی قانونی اثر اور باطل نہیں ہوگا۔”
آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم۔ آئین میں، آرٹیکل 243 میں، شق (4) کے بعد، درج ذیل نئی شق (5) ڈالی جائے گی، شق (4) میں مذکور سروسز چیفس کی تقرری، دوبارہ تقرری، توسیع، سروس کی حدود، ریٹائرمنٹ یا برطرفی مسلح افواج سے متعلق قوانین کی دفعات کے مطابق ہوگی،آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو آئینی تحفظ دینے کے لیے بھی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ مجوزہ بل کے تحت سروسز چیف کی تقرری اور ایکسٹینشن کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے گا، اور ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہو گی۔ اس سے آرمی ایکٹ کو مزید مستحکم اور محفوظ بنایا جائے گا۔
آئین کے آرٹیکل 255 میں ترمیم۔ آئین میں، آرٹیکل میں 255، شق (2) میں، الفاظ "وہ شخص” کے لیے، دوسری بار آنے والے الفاظ”ایک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، صوبے کے معاملے میں اور چیف جسٹس کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت، دیگر تمام معاملات میں” کو تبدیل کیا جائے گا۔ہائی کورٹس کے سوموٹو اختیار کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس سے ہائی کورٹس کے اختیارات میں کمی آئے گی۔ ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کے نظام کو بھی تبدیل کرنے کی تجویز شامل ہے تاکہ عدالتی نظام میں مزید نظم و ضبط اور شفافیت لائی جا سکے
[pdf-embedder url=”https://baaghitv.com/wp-content/uploads/2024/09/the-President-may-remove-the-Judge-from-office.pdf” title=”the President may remove the Judge from office”]