براڈ شیٹ کیس اصل حقیقت کیا؟ مبشر لقمان کا بیرسٹر راشد اسلم کے ساتھ خصوصی انٹرویو

پاکستان کے صف اول کے صحافی اور سینئیر اینکر پرسن مبشر لقمان کا کہنا ہے یہ براڈ شیٹ کس بیماری اور کس وائرس کا نام ہے اس پر ہر شخص بات کر رہا ہے ہر کوئی تبصرہ کر رہا ہے لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ اصل میں یہ ہے کیا؟ انہوں نے اس حوالے سے ایڈم برنارڈ نام کی ایک بہت بڑی لاء فرم ہے اس کے روح رواں بیرسٹر راشد اسلم جوچند دن کے لئے یوکے ،لندن سے لاہور آئے ہیں ان سے براڈ شیٹ کے بارے میں پوچھا کہ یہ کیا مسئلہ ہے؟

باغی ٹی وی : بیرسٹر راشد اسلم نے اس حوالے سے بتایا کہ براڈ شیٹ ایک پرائیویٹ کمپنی تھی جو کچھ انفرادی لوگوں نے سن 2000 میں یہ کمپنی تشکیل دی اس سے پہلے جب جنرل مشرف برسراقتدار تھے اس وقت اس کمپنی کی ان سے بات چیت ہوئی کہ ہم پاکستان کے تمام سیاسی لیڈرز بشمول میاں نواز شریف خاندان یا زرداری خاندان کے اثاثہ جات آپ کو ڈھونڈ کر دیں گے اور وہ آپ پاکستان میں واپس لے کر جا سکتے ہیں اس میں جو بات چیت ہوئی اس کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پایا کہ اس میں جو بھی اثاثہ جات ڈھونڈے جائیں گے اس جا 20 فیصد براڈ شیٹ کو ملے گا براڈ شیٹ صرف پاکستان کے لئے تھی براڈ شیٹ نے کسی اور ملک کے لئے خدمات نہیں دیں-

عالمی شہرت یافتہ بیرسٹر راشد اسلم نے بتایا کہ اب اسی مقصد کے لئے براڈ شیٹ کے نام سے ایک کمپنی تشکیل دی گئی اس وقت اس کو بنانے والے جیری جیمز تھے جن کی بعد میں پراسرار موت واقعی ہو گئی اور کچھ لوگوں نے کہا کہ انہوں نے خود کشی کی اور کسی نے کہا انہیں قتل کیا گیا ہے-

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے سن 2000 میں یہ معاہدہ ہوا اور سن 2003 تک یہ معاہدہ قائم رہا اور 2003 میں اس معاہدے کو ختم کر دیا گیا اب براڈ شیٹ کا اس وقت یہ موقف تھا کہ ہم نے بہت سارے ایسے ڈاکیومنٹس بہت سارے ایسے اثاثی جات بینک اکاؤنٹس حکومت پاکستان کو دیئے تھے اور براڈ شیٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارا ایک آفس پاکستان میں نیب کے آفس کی بلڈنگ میں ایک آفس بھی دیا گیا تھا جس کے ذریعے ہم نیب کے ساتھ سارے معاملات ساری دستاویزات دیکھ رہے تھے-

بیرسٹر راشد اسلم کے مطابق براڈ شیٹ کمپنی کا کہنا تھا کہ 2003 میں یہ معاہدہ ختم کیا گیا یا غلط ختم کیا گیا اس وقت تک ہم بہت سارے اثاثہ جات بہت سارے بینک اکاؤنٹس ڈھونڈ چکے تھے اور ہماری بہت ساری انویسٹمنٹ ہو چکی تھی تو پھر ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اس موڑ پر آ کر آپ ہم سے معاہدہ ختم نہیں کر سکتے-

مبشر صاحب نے سوال کیا کہ ہمارے پاس اس سے باہر نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا؟ اس پر بیرسٹر راشد اسلم نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ یہ بڑا پرابلم رہا ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی انٹرنیشنل لاء پر زیادہ توجہ نہیں دی-اگر آپ ہمارے ہمسایہ ممالک میں دیکھیں انڈیا میں یا باقی ممالک میں وہاں پوری ٹیم بیٹھی ہوتی ہے وکیل حضرات کی جواس پر کام کر رہی ہوتی ہے کہ اگر کوئی کانٹریکٹ آتا ہے ہمارے پاس تو ہم نے اس میں سے اپنے اپ کو سیکیور کیسے کرنا ہے ایگزٹ کراس کیسے رکھنی ہے؟ اس میں سے نکلنا کیسے ہے –

انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ براڈ شیٹ میں کوئی مضبوط ایگزٹ کراس رکھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے یہ فیصلہ ہوا جب 2003 میں یہ ہوا تو اس کے بعد کاروائی شروع کی گئی اس کے بعد 2005 میں یہ کپمنی بند ہو گئی اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں یا کوئی پیمنٹس نہ ہوئی ہوں یا انہوں نے خود بند کر دی ہو پارٹنرز کی نہ بنی ہو-

انہوں نے بتایا کہ جب یہ بند ہو گئی تو مقدمہ چل رہا تھا کاروائی ہو رہی تھی جو خط و کتابت ہو رہی تھی اس وقت پاکستان کی حکومت نے اس کمپنی کے نمائندے جیری جیمز کے ساتھ بات چیت کی انہوں نے 2008 میں ایک شیل کپمنی بنائی بالکل اسی نام سے انہوں نے پاکستان سے معاہدہ کیا کہ اگر آپ ہمیں 5 ملین پاؤنڈ دیتے ہیں کہ ہم یہ تنازعہ ختم کر دیتے ہیں اور سیٹلمنٹ کر لیتے ہیں-

مبشر لقمان نے کہا کہ لیکن یہ شیل کپمنی اصل کمپنی کی طرح کام نہیں کر رہی تھی ا س پر بیرسٹرراشد اسلم نے کہا کہ یہ موقف بھی سامنے آیا جو اس وقت کیس لڑ رہے ہیں اس سے پہلے یہ اکٹھے تھے جیری جیمز جو براڈ شیٹ کے بانی تھے نے پاکستان کو یہ تاثر دیا کہ میں ہی ڈیل کر رہا ہوں تو پاکستان کے وکیل ان کے اُس تاثر میں آگئے اور ہم نے رقم ادا کر کے سیٹلمنٹ کر لی اور جب یہ معاہدہ ہو گیا تو اس کے بعد 2009 میں دوبارہ ایک ایک سی کے سربراہ مسٹر کاوے موسوی نے وہ کمپنی ری اسٹیٹ کرائی اس کی درخواست دی کمپنی ری اسٹیٹ ہو گئی تو انہوں نے دوبارہ کام شروع کیا-

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان کا یہ موقف تھا کہ ہم نے تو آپ کے نمائندہ سے سیٹلمنٹ کر لی ہے ہمیں نہیں پتہ کہ اس نے دوسری کمپنی شروع کر کے کی ہم نے تو چیک دیا رقم ادا کرلی ہوئی ہے رقم باضابطہ طور پر ہائی کمیشن کے ذریعے ادا کی گئی تو کورٹ نے اس موقف کو نہیں مانا کورٹ نے کہا کہ اب یہ کمپنی ری اسٹیٹ ہوئی ہے اس کا رجسٹریشن نمبر اس جیری جیمز کی کمپنی کے رجسٹریشن نمبر سے مختلف ہے تو کورٹ اس موقف کو نہیں مانتی تو 2016 میں ایک پارشل ایوارڈ براڈ شیٹ کے حق میں فیصلہ کر تے ہوئے پاکستان سے کہتی ہے کہ اتنی رقم آپ ادا کریں تو پارشل ایوارڈ کا مطلب یہ تھا کہ فل ایوارڈ نہیں بلکہ لمیٹیڈ ایوارڈ ہوا-

بیرسٹر راشد اسلم کے مطابق اس کے بعد پھر بات چیت چلتی رہی اس میں بہت سارے لوگ گئے ہمارے جس طرح مسٹر موسوی نے کہا کہ بہت ساری ملاقاتیں ہوئیں لیکن سیٹلمنٹ نہیں ہوپائی اس کے بعد جب یہ ایوارڈ ہوا تو پاکستان نے پھر اس کے اوپر اپیل کی تو پاکستان کی یہ اپیل بھی منظور نہیں ہوئی اس میں بہت سارے ایشوز تھے جب پارشل ایوارڈ کے بعد فائنل ایوارڈ ہوا اس پر بھی اپیل ہوئی لیکن بات یہ تھی کہ ہم جب آرمٹریشن میں گئے تھے تو ہم نے یہ مانا تھا کہ ان کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ فائنل ہو گا تو کورٹ کا موقف تھا کہ آپ نے پہلے یہ مانا ہوا ہے کہ فیصلہ فائنل ہو گا اس لئے ہم اس کو فیصلے کو رد نہیں کر سکتے ا س کی وجہ سے ہم پر یہ پیمنٹ پر ہمیں یہ رقم ادا کرنا پڑی –

بیرسٹر راشد اسلم نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شروع سے آخر تک اگر آپ اس کا پورا بائیو ڈیٹا دیکھیں اس میں جو بھی حالات پیدا ہوئے اس میں بہت حد تک ہمارا لاء ڈیپارٹمنٹ بہت کمزور رہا ہم نے اس کو کبھی بھی پوری طرح معاملات خط و کتابت میں جیسے اٹارنی جنرل ایگریسیو نہیں دیکھا-

مبشر لقمان نے کہا کہ اس میں پی آئی اے کے ہوٹلز کہاں سے آ گئے وہ اس کو بھی لینے کے چکروں میں ہیں -اس پر بیرسٹر راشد اسلم نے کہا کہ در اصل جو چیز بھی پاکستان کے نام پر ہے اس کے اوپر انہوں نے یہ موقف لیا کہ اس کو ضبط کیا جائے جیسے ہائی کمیشن کا دفتر ، یو بی ایل کے بینکس میں حکومت پاکستان کے اکاؤنٹس تھے وغیرہ-حالانکہ پاکستان نے ڈپلومیٹک کمیونٹی اس پر کلیم تھی وہ بھی رفیوز کر دی گئی اور یہ بہت سخت فیصلہ ہے اور یہ معقول فیصلہ بھی نہیں ہے اس میں بہت ساری گراؤنڈز تھیں جس میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کے حق میں تھیں اور یہ جج کا فیصلہ تھا –

مبشر لقمان نے سوال کیا کہ کیا کاؤنسل کمزور تھے ہمارے ؟ انہوں نے کہا میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن مجھے جج کے فیصلے سے اختلاف ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ جو فیصلہ تھا اس فیصلے کے حوالے سے بہت ساری چیزیں بہت ساری ایسی گراؤںڈز لی جا سکتی تھیں جن پر پوری طرح غور نہیں کیا گیا ججمنٹ میں-

مبشر لقمان نے پوچھا کہ اب پھر اپیل کی گنجائش ہے ؟ اس پر بیرسٹر راشد اسلم نے کہا کہ اب تو ہم بہت آگے اس سے چلے گئے ہیں اور رقم ادا کر دی ہے صرف یہی پیمنٹ نہیں ہے اس کے علاوہ لیگل چارجز بھی ہیں ابھی ہم نے اور پیمنٹس کرنی ہیں مسٹر موسوی کو- ایک اور اہم بات کہ جس طرح وہ آفر کر رہے ہیں کہ ابھی بھی ان کے پاس اکاؤنٹس کی تفصیل ابھی آفر کر رہے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ڈیل کریں کہ ہمارے ساتھ دوباری کانٹریکٹ کریں میں دوبارہ اکاؤنٹس دیکھتا ہوں انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں اس کانٹریکٹ میں جانا چاہیئے-

Comments are closed.