بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے تحریر:جویریہ بتول

0
42

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے…!!!
[تحریر:جویریہ بتول]۔
یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو چکی ہے کہ مسلمان ایک مہذب،فیاضی،اور خدا ترسی و دردِ انسانیت سے مالا مال امت ہیں…
ان کی تعلیمات اس قدر ارفع ہیں کہ باقی اقوام بھی قوانین اور ضابطے یہاں سے مستعار لیتی رہی ہیں…
جب جب بھی مسلمانوں نے غلبہ حاصل کیا تب تب مفتوحہ علاقوں کے مکینوں کے ساتھ مسلمان لیڈرز کا حسنِ سلوک،رواداری اور فیاضی تاریخ کی روشن اور تابندہ مثالیں بنتا چلا گیا…!!!
لیکن ملتِ اسلامیہ پر ظلم و ستم کی خونچکاں داستاں اور خونِ مسلم کے ارزاں ہونے کی ایک الگ ہی کہانی ہے۔
اپنے تئیں مہذب کہلانے والی اقوام نے جب بھی غلبہ پایا تو اخلاقی گراوٹ اور ذہنی پستی اور درندگی کی انمٹ تاریخ رقم کر دی…!!!
ساٹھ کی دہائی میں عربوں کے سینے میں خنجر پیوست کرتے ہوئے اسرائیل اور یہودی آباد کاری کی بنیاد رکھی گئی اور فلسطین کے نہتے مظلوم مسلمانوں کی سر زمیں پر ناجائز قبضہ،مکانات کی مسماری،فصلوں کی تباہی اور بے در و گھر کر دینا اب ایک معمول کی بات بن چکی ہے…
مسئلہ کا دو ریاستی حل ایک خواب بنتا جا رہا ہے اور اسرائیلی ستم ظریفی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے…
گزشتہ روز گوگل اور ایپل ایپلیکیشن میپ سے فلسطین کا نام حذف کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ بہت پہلے کے آغاز کا ایک تسلسل ہے…
وہ قبلہ اوّل جو غیر مسلموں کے ہاتھوں تاریخ میں بار بار تاخت وتاراج ہوا،
پون صدی سے ایک بار پھر کسی عمررضی اللّٰہ یعنی اور صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی راہ تک رہا ہے…
کہ جب عمر اپنے غلام کو سواری پر بٹھائے اپنی چلنے کی باری پر سواری کی لگام تھامے پیوند زدہ لباس کے ساتھ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو عیسائی سربراہان ششدر رہ گئے تھے کہ یہ ہے مسلمانوں کا خلیفہ؟
اور بیت المقدس کی چابیاں عمر کے حوالے کر دی گئیں۔
اے تاریخ کےورقِ روشن…
ہمیں تُجھ پر ناز ہے…!!!
تاریخ نے ٹھہر کر وہ داستان بھی اپنے سینے میں محفوظ کر لی تھی جب 1176ء میں ایک صلیبی سردار کی حرکات جو یروشلم کے عیسائی بادشاہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے درمیان معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی تھی تو سلطان حرکت میں آیا…
جو اس کی اخلاقی،سیاسی،ملی اور مذہبی نقطۂ نظر سے بہترین حکمتِ عملی تھی۔
اور اس نے یروشلم کو عہد شکن قوم کے شکنجے سے آزاد کروا لیا تھا۔
مگر فاتح بن کر ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی پامالی کی داستانیں رقم نہیں کی گئی تھیں،بلکہ محکوم عیسائیوں کے ساتھ سلطان کا حسنِ سلوک تاریخ کا جھومر بن گیا اور عیسائی مؤرخین اس بات کا اعتراف کیئے بغیر نہیں رہ سکے کہ:
Even the Christian Europe,Saladin was justly celebrated and admired for his generous treatment of his defeated enemies…
(Bernard Lewis).
لیکن آج امت قحط الرجال کے دور سے گزر رہی ہے…
کڑا اور عجب وقت درپیش ہے،بحرانوں کا تسلسل ہے…اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے اور زخم ہیں کہ بڑھے جا رہے ہیں…
حالیہ سالوں میں لاکھوں بے گناہ مسلمان موت کے گھاٹ اتر گئے،
اتنے بڑے انسانی المیے پر انسانی حقوق کے داعی بھی مہر بہ لب رہے…
ہاں یقینًا کہ ان کا کام صرف مشاہدہ ہے،دخل اندازی نہیں…!!!
کیا صرف مشاہدے کیئے جاتے رہیں گے اور مسلمان ممالک ایک ایک کر کے ظلم و تباہی کی نت نئی رنگینیوں میں رنگے جاتے رہیں گے…؟؟؟
دنیا کے نقشہ پر موجود حل طلب دیرینہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے کیا نقشے سے ہی حذف کر دیا جائے گا…؟
ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ اپنے مسائل کا حل ہمیں خود تلاشنا ہو گا…
انسانیت کے حقوق کا عَلم ہم نے خود تھامنا ہو گا…
تاریخ کی نظر کسی عمر و ایوبی کے حقوقِ انسانی اور حسن و فیاضی سے لبالب بھرے کردار کو تلاش رہی ہے…!!!
ہمیں آوازِ ضمیر کو شدت سے دبا دینے کی بجائے اسے دنیا میں بلند کرنا ہو گا تبھی ہم اپنا معیار،مقام اور وقار بچا اور بحال رکھ پائیں گے ورنہ سازشوں کا دیو ہیکل اژدھا آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا…!!!
حکیم الامت نے اس درد کو کیا خوب بیان کیا تھا:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے،
یہ مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔
اے لا الہ الا اللّٰہ کے وارث،باقی نہیں ہے تجھ میں…
گفتارِ دلبرانہ…کردارِ قاہرانہ…!!!
===============================

Leave a reply