مزید دیکھیں

مقبول

نعیم حیدر پنجوتھہ نے عمران خان سے علیمہ خان کی شکایت کردی

راولپنڈی: بشری بی بی کے فوکل پرسن نعیم حیدر...

حضرو:12 سالہ بچی فروخت،70 سالہ بابے سے زبردستی شادی، سوتیلے باپ سمیت 9 گرفتار

اٹک(باغی ٹی وی)حضرو میں سوتیلے باپ نے12سالہ بچی فروخت...

ڈسکہ میں تنظیم الااخوان کا ماہانہ ذکر قلبی اجتماع

ڈسکہ (باغی ٹی وی نامہ نگار ملک عمران) سلسلہ...

قومی اسمبلی کااجلاس کل ہوگا، ایجنڈا جار ی

قومی اسمبلی کااجلاس کل ساڑھے11بجے ہوگا جس کے لئے...

بیوروکریسی بمقابلہ اللہ کریسی تحریر : حضور بخش کنول اعوان

پاکستان میں اس وقت جس تیزی کے ساتھ مہنگاٸ کا جن تھیلے سے باہر آیا ہے کہ خدا پناہ ۔

ہر طرف ذخیرہ اندوزی ہر طرف لوٹ کھسوٹ ، چیک اینڈ بیلنس سسٹم کے مٶثر نہ ہونے کی وجہ سے عوام اشیا مہنگے داموں خریدے پہ مجبور ہے ۔

سچ تو یہ ہے کہ اس حکومت کو اگر اندرونی و بیرونی طور پہ چیلنجز کا سامنا ہے تو اس وقت بیوروکریسی حکومت کے سنگ ہوتی کہ حکومت اپنے ریاستی معاملات دیکھے جبکہ بیوروکریسی عوام کو سستی سہولیات فراہم کرنے کو ممکن بنانے کی جدوجہد میں مصروف عمل دکھاٸ دیتی ۔
مہنگاٸ کا آفریت اس وقت کنٹرول سے باہر ہے عوام ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گٸ ہے ۔
اے سی حضرات ڈی سی صاحبان اگر ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاٶن کر کے مال مسروقہ ضبط بحق سرکار کر کے عوام کو سستے داموں دے کے ریلیف دیں تو کیا ہی بات ہوگی کہ عوام کسی بھی چیز کی وہی قیمت دے جو بنتی ہو ایسا نہیں کہ مفاد پرست اور یہ ڈیلر حضرات ذخیرہ اندازی کر کے اس چیز کی شارٹیج کر کے من پسند قیمت وصول کریں یہ بات خلاف ریاست ہے ۔

اس وقت اگر ملک کی عوام کے حالات کا موازنہ کیا جاۓ تو وہ ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل کھا پا رہے ہیں ۔
حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت بیوروکریسی سے دوبارہ حلف لے تاکہ وہ حلف کی پاسداری کرتے ہوۓ عوام کو سستی سہولیات کی فراہمی کو تو ممکن بناٸیں ۔
نواب آف کالاباغ نواب ملک امیر محمد خان اعوان اکثر کہا کرتے تھے کہ
” بیوروکریٹس پاکستان کا وہ طبقہ ہے جو اس وقت تک عام آدمی کے مساٸل سے واقف نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ خود ان حالات سے نہ گزرے “
جبکہ بیوروکریٹ بنتے ہی 90 فیصد امیروں جاگیرداروں یا سیاستدانوں کے بچے ہیں ۔
تو جنہوں نے غربت دیکھی ہی نہ ہو جن کو علم ہی نہ ہو کہ چینی ، آٹا ، دال ، چاول ، گھی یا دیگر اشیاۓ خوردونوش کی کیا قیمت ہے ۔؟
کیا ان قیمتوں پہ ایک دیہاڑی دار طبقہ جو پاکستان کے ساٹھ فیصد پہ مشتمل ہے وہ ایک وقت کی بھی روٹی بچوں کو کھلا سکتا ہے ۔؟
جس شخص کی دیہاڑی دو سو سے پانچ چھ سو تک ہو کیا وہ ایک وقت میں چینی ، گھی ، دال ، چاول ، آٹا نمک مرچیں لے یا وہ سبزی یا گوشت لے ۔
اس وقت مہنگاٸ کا مسلہ ریاستی مسلہ ہے اگر بیوروکریٹ اس وقت ریاست و ریاستی عوام کے ساتھ مخلص رہیں چیک اینڈ بیلنس سسٹم کو ٹھیک کریں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاٶن کریں تو یقین مانیں پاکستان میں مہنگاٸ کا بے قابو ہوتا جن قابو ہو جاۓ گا ۔
بیوروکریسی کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے جب تک بیوروکریسی ٹھیک ہے تب تک حالات بہتر ہیں ۔
اس کی ایک واضع مثال یہ ہے کہ جہاں بیوروکریسی اپنے کام سے مخلص ہے اور دیانت دار ہے وہاں کےحالات بہترین ہونگے نہ کوٸ رشوت کا چکر نہ کوٸ کام نہ ہونے کا ڈر نہ لاقانیونیت ۔
اب یہ بھی نہیں ان کے ماتحت سب ٹھیک ہونگے ہر جگہ کالی بھیڑیں موجود ہوتی ہیں ۔
جہاں بیوروکریسی کرپٹ ہوگی ان کے ماتحت ان کو رول ماڈل بنا لیں گے کہ یہ تو خود کرپٹ ہے ہمیں کیا روکے گا ۔
جب ان کو ان کی کارستانیوں کے بارے آگاہی دی جاۓ تو اکثر یہ جواب ہوتا ہے کہ
” جا صاحب نال گل کر “
مطلب فری ہینڈ نہ کوٸ ڈر نہ کوٸ خوف ۔
ایسے میں حالات کو کنٹرول کرنا رشوت کے بازار کو روکنا اور جراٸم کی شرح پہ قابو پانا مشکل ترین ہوتا ہے ۔
وہاں کے سب کام پیسے سے ہوتے ہیں اور یہی کسی معاشرے کی تنزلی کا باعث ہوتی ہے کسی شہر یا علاقے کی تباہی کا موجب ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک وقت ایسا بھی آجاۓ کہ عوام ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو جاۓ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں افراتفری پھیل سکتی ہے بھوک سے خودکشیوں کیتعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور جراٸم کنٹرول سے باہر ہو جاٸیں گے جو ریاستی ناکامی ہوگی ۔
نواب آف کالاباغ نواب امیر محمد خان آج کے بنگلہ دیش اور پورے پاکستان کے گورنر ہوا کرتے تھے ان کے زمانے میں اگر ایسا کچھ ہوتا تو وہ کہا کرتے تھے کہ
” اللہ کریسی “ اور یوں وہ اللہ کا نام لے کر عوامی مساٸل کے حل کیلۓ ہر ممکن کوشش کرتے اور عوام کو ریلیف دینے کیلۓ کالاباغ سے آسام تک عوام میں موجود رہتے ۔
اس وقت ہمارے بیروکریٹس کو بھی اللہ کریسی کہہ کے مہنگاٸ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہیۓ تاکہ عوام دووقت کی روٹی سکون سے کھا سکے ۔
اللہ پاکستان کو ہر مصیبت اور دشمن کے شر سے محفوظ رکھے آمین

‎@Gumnam_HBK