بیویوں کی کال ریکارڈنگ:ایسی حرکت سےگھربرباد ہوتےہیں:بیوں پراعتماد سےہی گھربستےہیں:ہائی کورٹ
چندی گڑھ :بغیراجازت بیوی کی کال ریکارڈنگ،پرائیویسی کےحق کی خلاف ورزی:بیوں پراعتماد سے ہی گھر بستے ہیں:ہائی کورٹ کا زبردست فیصلہ ،اطلاعات کے مطابق پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں واضح کیا ہے کہ بیوی کی منفی تصویر دکھانے کے لیے اس کی رضامندی کے بغیر کالز ریکارڈ کرنا اس کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے۔
ہائی کورٹ نے فیملی کورٹ کے اس حکم کو بھی ایک طرف رکھ دیا ہے، جس کے تحت بھٹنڈہ فیملی کورٹ نے اس کال ریکارڈنگ کو ثبوت مانا تھا۔
پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے خاتون نے بتایا کہ ان کے اور شوہر کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے۔ اس تنازعہ کی وجہ سے شوہر نے 2017 میں بھٹنڈہ کی فیملی کورٹ میں طلاق کا مقدمہ دائر کیا۔
اس دوران اس نے اپنے اور درخواست گزار کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ بطور ثبوت پیش کی۔ فیملی کورٹ نے اسے قبول کر لیا جو کہ قواعد کے مطابق درست نہیں۔
اس پر شوہر کی جانب سے دلیل دی گئی کہ اسے ثابت کرنا ہوگا کہ بیوی ظالم ہے اور یہ گفتگو اس کی دلیل ہے۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص کسی کی پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کیسے کر سکتا ہے۔
شریک حیات کے ساتھ فون پر ہونے والی گفتگو کو اس کی رضامندی کے بغیر ریکارڈ کرنا پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ ہائی کورٹ نے بھٹنڈہ کی فیملی کورٹ کو حکم دیا کہ وہ فون ریکارڈنگ کو بطور ثبوت نہ مانتے ہوئے چھ ماہ کے اندر طلاق کے معاملے پر فیصلہ کرے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ 24 اگست 2017 کو سپریم کورٹ کی نو ججوں کی بنچ نے پرائیویسی کے حق کو آئین کے تحت بنیادی حق قرار دیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پرائیویسی انسانی وقار کا آئینی مرکز ہے۔ پرائیویسی کے حق کو آرٹیکل 21 کے تحت زندگی کے حق کا ایک لازمی جزو تسلیم کیا گیا ہے۔