لاہور: مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن( ر)صفدر کی بریت کی درخواستیں منظور کرلی گئیں جس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔
باغی ٹی وی: لاہور کی جوڈیشل مجسٹریٹ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا عدالتی فیصلے کے مطابق 12 ستمبر 2019 کو کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف عوام کو حکومت کے خلاف اکسانے کا مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کیا آئین شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے، بولنے اور تقریر کرنے کی آزادی آئین میں اول درجے پر ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کیپٹن صفدر ریٹائرڈ پر 2021 میں فرد جرم عائد ہوئی جس کے بعد پراسکیوشن کے گواہوں کو طلب کیا گیا تاہم آج کی تاریخ تک کوئی گواہ پیش نہیں ہوا اگرگواہ پیش نہ ہو رہےہوں توکسی ملزم کا لامحدود وقت کےلئےٹرائل نہییں کیا جاسکتا، پراسکیوشن نے آڈیو کے شواہد جمع کرائے نہ فرانزک کرایا۔
نگران وزیرخارجہ کی امریکا، روس اوریورپی یونین کےرہنماؤں سےالگ الگ ملاقاتیں
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایسے ٹرائل میں ملزم کو سزا کا کوئی امکان نہیں بلکہ عدالتی وقت کا ضیاع ہوگا، لہذٰا کیپٹن (ر) صفدر کی بریت کی درخواست کو منظور کیا جاتا ہے، ملزم ضمانت پر ہے لہٰذا ضمانتی مچلکے منسوخ کر کے فائل داخل دفتر کی جاتی ہے۔
بھارتی حکومت کے ایجنٹس کے قتل میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں،کینیڈین وزیراعظم
واضح رہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف 2019 اور 2020 میں مقدمات درج کیے گئے تھےتھانہ اسلام پورہ میں کیپٹن ر صفدر کے خلاف کار سرکار میں مداخلت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جمعرات کو سماعت پر کیپٹن( ر) صفدر اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے اور اپنی حاضری لگائی تھی۔عدالت کے روبرو بریت کی درخواست میں کیپٹن( ر) محمد صفدر نے موقف اختیار کیا کہ مریم نواز کی پیشی کے موقع پر پولیس اہلکاروں کو فرائض انجام دہی سے روکنے کا جھوٹا الزام ہے-
مقدمہ میں کیپٹن ( ر) صفدر، جہانزیب اعوان سمیت 10 سے 12 نامعلوم ملزموں کا ذکر ہے، نامعلوم ملزموں میں سے کسی کو بھی ٹرائل میں شامل نہیں کیا گیا، جبکہ کسی پولیس اہلکار کی وردی پھٹنے کا ذکر بھی صفحہ مثل پر موجود نہیں جبکہ کار سرکار میں مداخلت کی وڈیو کی کوئی فرانزک رپورٹ پیش نہیں کی گئی،اسی طرح فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ رپورٹ بھی صفحہ مثل پر موجود نہیں، کیپٹن( ر) محمد صفدر کے وکیل نے استدعا کی کہ کیپٹن( ر) صفدر کو مقدمہ سے بری کیا جائے۔