چودھری صاحب 1931ء میں انڈیا کے گاؤں "گگرولی” میں پیدا ہوئے۔ چودھری صاحب ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جہاں سونا مراد گولڈ اور دولت بے شمار تھی۔1947ء میں آزادی کے اعلان پر 16 برس کی عمر میں پاکستان ہجرت کر آئے اور عارضی رہائش لاہور میں اختیار کی۔مستقل رہائش کے لیے "كهیوہ” گاؤں کا انتخاب کیا۔جہاں چودھری صاحب نے کافی عرصہ بسر کیا،بڑے بھائی کے انتقال کے بعد وہ چنیوٹ کی ایک تحصیل میں رہائش پزیر ہو گئے:اسی زمین پر ان کے چار بیٹوں اور تین بیٹیوں نے جنم لیا۔

چودھری صاحب نے چنیوٹ کی تحصیل میں مستقل رہائش اپنائی اور اپنا سب کچھ وہی بنایا۔چند ہی سالوں میں چودھری صاحب نے اس علاقہ میں خوب نام کمایا اور معروف شخصیات میں سے ہو گئے۔(البتہ اگر وہ کہا کرتے تھے جو دولت انڈیا میں چھوڑ آئے اب وہ کہا ميسر)علاقہ کے خاص مقامات پر چودھری صاحب کی جائیداد موجود تھی۔اس علاقہ کے حکمران مراد ایم این اے اور ایم پی اے بھی اُن سے مشاورت کرتے،اور تقریباً ہر دعوت میں چودھری صاحب اُن کے ساتھ ہوتے تھے۔شان و شوکت اتنی تھی کہ شہر میں ہر کوئی ان کے نام سے واقف تھا۔

جیسے ہی ان کی اولاد بڑی ہوئی،وقت بدلہ،سماج نے دیکھا۔اُن کے بیٹوں نے شادی کے بعد جائیداد میں حصہ لینے کا مطالبہ کر دیا۔چونکہ چودھری صاحب کے دو بڑے بیٹوں کی شادی پہلے ہوئی اس واسطے وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں کا حق ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔وہ چودھری جس نے اپنی زندگی مزے میں گزاری،اب اس کی زندگی میں مشکلات بڑھنے لگیں۔بیس سال گزر گئے اور بیٹوں میں جائیداد کا تنازع چلتا رہا۔یہاں تک کہ چودھری صاحب کے آنگن میں پوتے اور پوتیوں کی آمد بھی ہو چکی تھی(چودھری صاحب کے لیے سب سے غمگین لمحہ وہ تھا جب ان کی حویلی چار حصوں میں بٹ گئی)۔

یہ 2006ء کے بعد کا وقت تھا ابھی بھی ان کا نام شہر میں مشہور تھا۔مگر اولاد کی بداخلاقی کی وجہ سے وہ سکت نہ رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔اولاد میں جائیداد کا مطالبہ اس قدر بڑھ گیا کہ بیسیوں مرتبہ وہ اپنے والد سے بداخلاقی سے پیش آچکے تھے۔در اصل ان کا پہلا بیٹا دیگر کی نسبت زیادہ حصہ کا مطالبہ کرتا۔دوسرا تیسرے اور تیسرا دوسرے کی نسبت زیادہ اور،چوتھا اور چھوٹا سب کی نسبت زیادہ حصہ کا طلب گار تھا۔_”ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہو گا”۔

چودھری صاحب کے آخری ایام آئے تو دربدر ہو گئے۔چند روز ایک بیٹے کے گھر بسر کرتے تو اس کے تانوں سے تنگ آ کر دوسرے کے گھر چلے جاتے؛ایسے ہی یہ سلسلہ چلتا رہا۔2016ء میں چوتھے بیٹے کے گھر رہنے کے بعد تیسرے کے گھر چلے گئے:کیوں کہ چوتھے بیٹے نے ان کی بہت بے عزتی کی تھی۔تیسرے بیٹے نے چودھری صاحب کو خوشی سے خوش آمدید کیا۔سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔چودھری صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو دوبارہ خوش دیکھ کر میں نے پوچھا تو انہو نے کہا:”میرا تیسرا بیٹا بہت اچھا ہے،اب میں وہی رہ رہا ہوں،وہ میرا بہت خیال رکھتا ہے۔”

چودھری صاحب تقریباً 27 یا 28 نومبر 2016ء کو اپنے تیسرے بیٹے کے ہاں رہائش پزیر ہوئے تھے۔ میری ان سے ملاقات عین 5 دسمبر کو ہوئی تھی۔چودھری صاحب قدرِ خوش اور صحت کے لحاظ سے بھلے محسوس ہو رہے تھے۔

یہ 6 دسمبر 2016ء کا دن تھا کہ اچانک مسجد سے آواز آئی: اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن ،حضرات ایک ضروری اعلان غور فرمائیں،
"چودھری صاحب وفات پا گئے”
چودھری صاحب کی جب 5 اور 6 دسمبر کی درمیان والی رات کو طبیت بگڑی تھی اور یہ ضروری تھا کہ چاروں بیٹے مل کر انھيں اسپتال لے جائیں۔خیر ایسا ہی ہوا،پوری رات چودھری صاحب نے کرب میں گزاری اور صبح وفات پا گئے۔ ڈاکٹر نے غصہ میں کہا: ‘چودھری صاحب کو جان ليوا گولیاں دی گئی تھی۔’

Shares: