چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک ناکام ہوگئیں،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی قراردادتین ووٹوںسے مسترد ہوگئی، کل 100ارکان نے ووٹ ڈالے ، قرارداد کے حق میں 50 مخالفت میں 45، پانچ ووٹ مسترد ہوئے جبکہ تین ارکان نے ووٹ نہیںڈالا،جبکہ سلیم مانڈوی والا کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے حق میں 32 ووٹ آئے،

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحاریک عدم اعتماد کے عمل کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار جمعرات کوچیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو عہدے سے ہٹانے کی قرارداد پر رائے شماری ہوئی۔ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی گئی،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی قراردادتین ووٹوںسے مسترد ہوگئی، کل 100ارکان نے ووٹ ڈالے ، قرارداد کے حق میں 50 مخالفت میں 45، پانچ ووٹ مسترد ہوئے جبکہ تین ارکان نے ووٹ نہیں ڈالا، عدم اعتماد کی تحریک مسترد ہونے پر ایوان ایک سنجرانی سب پے بھاری کے نعروں سے گونج اٹھا،

وزیربرائے پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی نے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی اعلیٰ قیادت کو تحریک کے مسترد ہونے کی خبردی، پہلاووٹ حافظ عبدالکریم، دوسرا عبدالغفور حیدری اور تیسرا ووٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے ڈالا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ، شیخ عتیق اور نجمہ حمید پہلی بار ووٹ ضائع ہونے پر دوبارہ ووٹ جاری کیے گئے، جماعت اسلامی عدم اعتماد کی تحریک سے الگ رہی جبکہ مسلم لیگ ن کے چوہدری تنویر نے ووٹ نہیں ڈالا، تحریک کے حق میں اپوزیشن کے 64ارکان کھڑے ہوئے جبکہ قرارداد کے حق میں 50ارکان نے ووٹ دئیے، ایوان میں ووٹنگ کے دوران ثناء جمالی تلاوت کرتی رہیں، صادق سنجرانی پراعتماد دکھائی دئیے جبکہ اپوزیشن کے رہنما بے چین نظرآئے۔

جمعرات کو سینیٹ کا اجلاس پریزائیڈنگ افسرمحمد علی سیف کی سربراہی میں ہوا ۔ اجلاس میں قائدحزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔ تحریک کے حق میں 64ارکان کھڑے ہوئے جس پر ایوان میں عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی گئی، قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہاکہ قانون کے مطابق تمام ارکان اس حوالے سے تقریر کرسکتے ہیں مگر ہم ایوان کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے اس لئے جلد ازجلد رائے شماری کرائی جائے۔ قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ ہم بھی تقریر نہیںکرنا چاہتے ، ڈٹ کر عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کریں گے جس پر پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر محمد علی سیف نے خفیہ رائے شماری کا عمل شروع کروایا۔ پہلا ووٹ حافظ عبدالکریم نے ڈالا جبکہ دوسرا ووٹ سابق ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے اور تیسرا جنرل(ر) عبدالقیوم نے ڈالا جبکہ آخری ووٹ سینیٹر ولید اقبال نے ڈالا، ووٹنگ کے دوران ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں محمد عتیق پہلے سینیٹر تھے جن کاووٹ خراب ہوا تو انہوں نے دوسرے ووٹ کی استدعا کی جس پر ان کو دوسرا ووٹ جاری کیا گیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو جب ووٹ دیا گیا تو وہ بھی اپنا ووٹ خراب کر بیٹھے اور غلطی سے آدھی اسٹمپ دوسرے خانے میں چلی گئی جس پر انہوں نے بھی دوسرا ووٹ لینے کی استدعا کی۔ جبکہ تیسرا ووٹ مسلم لیگ ن کی سینیٹر نجمہ حمید کا ضائع ہوا انہوں نے بھی دوبارہ ووٹ کی استدعا کی جس پر ان کا پہلا ووٹ منسوخ کرکے نیاووٹ جاری کیا گیا ۔ سینیٹر عائشہ رضا نے ان کے ساتھ ووٹ پرمہر لگانے کیلئے پولنگ بوتھ میں جانے کی استدعا کی جس کو پریزائیڈنگ افسر نے مسترد کردیا کہ کوئی سینیٹر دوسرے سینیٹر کے ساتھ پولنگ بوتھ میں نہیں جا سکتا اور ایک خاتون اہلکار کو نجمہ حمید کے ساتھ جانے کا حکم دیا کہا کہ جس پر وہ کہیں اس پر مہر لگا دیں۔ اسی دوران مسلم لیگ ن کے سینیٹر آصف کرمانی نے اعتراض کیا کہ رول کے تحت عائشہ رضا ان کے ساتھ جاسکتی ہے جس پر پریزائیڈنگ افسر اور آصف کرمانی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، محمد علی سیف نے کہاکہ میں یہاں ایک آئینی کام کیلئے بیٹھا ہوں، غیر پارلیمانی طریقہ نہیں چلے گا جو ایسا کرے گا میں اس کا ووٹ منسوخ کردوں گا۔ یہ میری آئینی ذمہ داری ہے کہ اس عمل کو مکمل کروں اور امید ہے کہ آپ میرے ساتھ تعاون کریں گے ۔ یہ کوئی سیاسی جلسہ نہیں۔

ووٹنگ کے عمل میں جماعت اسلامی کے سینیٹر امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اور مشتاق احمد نے حصہ نہیںلیا جبکہ مسلم لیگ ن کے ایک سینیٹر چوہدری تنویر بھی ایوان میں نہیں آئے۔ چاربجے پولنگ کا عمل مکمل ہوا اور گنتی کا عمل شروع ، گنتی کرنے سے پہلے سیکرٹری سینیٹ نے تین ارکان جنہوںنے ووٹ نہیں ڈالے ان کے نام دوبارہ لئے کہ اگر وہ ووٹ ڈالنا چاہیں توڈال لیں، مسلم لیگ ن کی طرف سے سینیٹر جاوید عباسی اور تحریک انصاف کی طرف سے نعمان وزیر کو پولنگ ایجنٹ بنایا گیا تھا۔ ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو سینیٹر اعظم سواتی ساتھ ساتھ ووٹ گنتے رہے، جیسے ہی ووٹوں کی گنتی مکمل ہوئی اس سے پہلے ہی سینیٹر اعظم سواتی اپنی سیٹ سے فوراً اٹھے اور لابی کی طرف چلے گئے اور اعلیٰ قیادت کو فون کرکے آگاہ کیا کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی ہے۔ سینیٹر شبلی فراز فوراً ان کے پیچھے اور ان کو واپس ایوان میں لے آئے۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی ارکان نے جشن منانا شروع کردیا جس پر بیرسٹر علی سیف نے ان کو اپنی نشستوں پر بیٹھنے کا حکم دیا۔پریزائیڈنگ افسر نے اعلان کیا کہ قرارداد کے حق میں50ووٹ پڑے مطلوبہ تعداد میں ووٹ نہ پڑنے کی وجہ سے قرارداد مسترد کی جاتی ہے۔ ان کے اعلان کے ساتھ ہی بلوچستان کے سینیٹر نے ایوان میں شدید نعرے بازی کی ، ایوان ایک سنجرانی سب پے بھاری کے نعروں سے گونج اٹھا جس پر پریزائیڈنگ افسر نے دوبارہ حکم دیا کہ نعرے باہر جا کر ماریں ایوان کا تقدس کا خیال رکھیں۔

چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی قرارداد کے حق میں 50ووٹ ،مخالفت میں 45 اورپانچ ووٹ ضائع ہوئے۔چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور حکومتی اراکین کی جانب سے ایک سنجرانی سب پر بھاری کے نعرے لگائے گئے۔چیرمین صادق سنجرانی کے خلاف ووٹنگ کے بعد قائد ایوان شبلی فراز نے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کو ہٹانے کیلیے تحریک عدم اعتماد پیش کی۔اپوزیشن نے ڈپٹی چیئرمین کیخلاف ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے رائے شماری میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور ووٹ نہیں ڈالے، لیکن اس فیصلے کے خلاف 5 اپوزیشن اراکین نے ووٹ کاسٹ کیا جن میں پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا، روبینہ خالد، محمد علی جاموٹ اور قرا العین مری جبکہ ن لیگ کے ساجد میر شامل تھے۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلیے حکومت کو بھی 53 ارکان کی ضرورت تھی لیکن اسے 32 ووٹ ملے۔ اس طرح ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔۔چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحاریک عدم اعتماد کے عمل کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
محمد اویس

Shares: