چین کا ‘روبوٹک لونر مشن’ چاند پر روانہ ، کیاامریکا پر برتری حاصل کر پائے گا دنیا منتظر

باغی ٹی وی : غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کا اسپیس کرافٹ آج صبح صوبے ہینان کے وین چینگ اسپیس سینٹر سے چاند کی جانب روانہ ہوا۔

اسپیس کرافٹ نومبر کے آخر میں چاند پر پہنچےگا اور دسمبر کے شروع میں زمین پر واپس آجائےگا اور اگر چین چاند سے سیمپل لانے میں کامیاب ہوا تو وہ ایسا کرنے والا دنیا کا تیسرا ملک بن جائے گا۔

چین کے لونر مشن کا مقصد چاند کی سر زمین اور اس کی چٹانوں کے بارے میں جاننا ہے تاکہ سائنسدان چاند کی ابتداء، اس کی تشکیل اور وہاں موجود آتش فشاں کی سرگرمی کے بارے میں جان سکیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 1960 اور 1970 میں امریکا اور سوویت یونین چاند پر سے سیمپل لا چکے ہیں۔چین نے اس میدان میں امریکہ اور روس کی برتری کو کم کرنے کے لیے بھرپور محنت کی ہے۔ ان دونوں ممالک کے خلانوردوں کو خلائی تحقیق میں دہائیوں کا تجربہ حاصل ہے۔چین اپنے خلائی پروگرام کو دنیا بھر میں اپنے بڑھتے کردار اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔

چین کے خلائی پروگرام کی موجودہ صورتحال اور اس کے مستقبل کے حوالے سے چند اہم نکات یہ ہیں:1957 میں روس کی جانب سے سپتنک نامی خلائی راکٹ لانچ کرنے کے بعد چین کے رہنما چیئرمین ماوزے تنگ نے کہا تھا ’ہم بھی سیٹلائٹ بنائیں گے۔‘ اس عمل میں ایک دہائی کا عرصہ لگا لیکن چین نے 1970 میں اپنا پہلا سیٹلائٹ ایک راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیج دیا تھا .
نسانوں کو خلا میں پہنچانے میں مزید کئی دہائیاں لگیں اور 2003 میں یانگ لیوی خلا میں جانے والے پہلے چینی خلا باز بنے۔ اس لانچ کے دوران مشن کی کامیابی کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کے باعث آخری لمحات میں ملک بھر میں ٹیلی ویژن کی نشریات بند کرنا پڑی تھیں۔

خدشات کے باوجود یہ لانچ بہت آرام سے روانہ ہو گئی اور یانگ نے اپنے 21 گھنٹوں کی پرواز کے دوران 14 بار زمین کے مدار کا چکر لگایا۔ اس چینی خلائی جہاز کا نام ’شین زو فائیو‘ تھا۔ اس کے بعد سے چین کی جانب سے خلا میں مرد اور خواتین خلا بازوں کو بھیجنے میں اضافہ ہوا۔ امریکہ اور روس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چین زمین کے گرد چکر لگانے والا ایک خلائی سٹیشن بھی تعمیر کرنا چاہتا ہے

Shares: