کل امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، جاپان اور اٹلی نے جی سیون کے پلیٹ فارم سے ایک اعلامیہ جاری کیا۔ جس کے بعد ایک بار پھر مغرب اور مشرق آمنے سامنے آچکے ہیں کیونکہ اس میں واضح ٹارگٹ چین اور روس تھا ۔ جبکہ چین پر تو ایک طرح سے مغرب نے charge sheet لگانے کی کوشش کی ۔ کہ چین سے وائرس کیسے شروع ہوا ۔
چین میں ایغور مسلمانوں پر ظلم کیوں ہورہا ہے ۔تائیوان اور بھارت کے حوالے سے چین کا رویہ جارحانہ ہے ۔چین کے نظام میں شفافیت نہیں ہے ۔ اور سب سے اہم چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بڑے کھلے الفاظ میں نشانہ بنایا ہے ۔ اب انھوں نے چین کے مقابلے میں ایک نیا منصوبہ لانے کا اعلان کیا اور اس OBOR (One Belt One Road)منصوبے کے مقابلے میں بڑے جارحانہ انداز میں پیش کیا جارہا ہے ۔ اس پر چین کی جانب سے تو بہت ہی سخت درعمل سامنے آیا ہے ۔ دراصل جی سیون ممالک نے ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے سرمایہ کاری کے ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کر لیا ہے جس کا مقصد چین کے بڑھتے عالمی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر رہنماؤں نے چین کے خلاف سٹریٹیجک مقابلے کے موضوع پر بات چیت کی ہے جس کے بعدbuilt back better world ya B3W یعنی عالمی سطح پر تعمیر نو کے ایک نئے منصوبے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔
۔ اب جی سیون کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک 400 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ترقی پذیر دنیا میں انفراسٹرکچر تعمیر کریں گے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ بیجنگ نے دنیا کے کئی ممالک میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس حوالے سے مغرب کا ماننا ہے کہ چین نے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو مقروض کیا ہے اور وہ یہ قرض واپس نہیں کر سکیں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی چین پر سنکیانگ صوبے میں جبری مشقت اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی الزام عائد کرتے ہیں۔اس جی سیون کے اعلامیہ میں بھی اس جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔
۔ اگر آپکو یاد ہو تو اس سال کے آغاز میں امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا نے چین کے خلاف مل کر مختلف پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ان میں سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے افسران کے خلاف سفری پابندیاں، اور ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کرنا شامل تھا ۔ چند ہفتے قبل بھی امریکہ نے مزید چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا تھا ۔ اور کئی چینی کاروباری حضرات پر مختلف نوعیت کی پابندیاں لگائی تھیں ۔ جبکہ چین نے اپنے خلاف لگنے والی پابندیوں کے جواب میں یورپی حکام پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔
۔ چین نے حالیہ اعلامیہ کے بعد جی سیون کے عالمی رہنماؤں کو ورننگ دی ہے کہ وہ دن گئے جب چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چھوٹے، بڑے، مضبوط، کمزور، امیر اور غریب ہر طرح کے ملک برابر ہیں۔ اور یہ کہ عالمی امور پر تمام ممالک کی مشاورت کے بعد فیصلے ہونے چاہئیں۔
۔ یہ درحقیقت ایک پلان کا حصہ ہے کیونکہ امریکی صدر جوبائیڈن اپنے پیش رو ٹرمپ کی طرح سمجھتے ہیں کہ مغربی طاقتوں کو فوری طور پر چین کے خلاف اتحاد مضبوط کرنا ہوگا۔ مگر جوبائیڈن کا طریقہ واردات ٹرمپ سے مختلف ہے ۔ جوبائیڈن اچھی اچھی باتیں کریں گے ۔ امیج اپنا اچھا رکھیں گے ۔ مگر چین کے خلاف سازش کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیں گے ۔ سیاسی ، معاشی اور دفاعی ہر جانب سے چین کو کاری ضرب لگانے کی کوشش کریں گے ۔۔ مغرب کے خیال میں صدر بائیڈن کا build back better world منصوبہ چین کی ایک ایسی سکیم کا حریف بنے گا جس کی مدد سے کئی ملکوں میں ٹرین، سڑکیں اور بندرگاہیں بنائی گئی ہیں۔ میرے خیال سے امریکہ بڑی ہوشیاری اور تیزی سے چین کا راستہ بند کرنے پر لگا ہوا ہے ۔ اگر آپ دیکھیں تو اس کی ابتداء وباء کے پھوٹنے کے بعد چین پر لگنے والے الزامات تھے ۔ امریکہ کی چین کے خلاف ٹریڈ وار تھی ۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کیسے امریکہ نے چین کے خلاف QUADگروپ کو منظم کیا ۔ بہت سے ایسے ممالک جہاں چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت بندگاہیں تعمیر کر چکا ہے یا کررہا ہے ۔ ان سب کو امریکہ نے کسی نہ کسی طرح engage کر لیا ہے یا کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اس کی واضح مثال پاکستان ہے ۔ ایران ہے ، سری لنکا ہے اور بنگلہ دیش ہے ۔ جن پر اس وقت امریکہ کا سخت پریشر ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ چین کے منصوبے سے الگ ہوجائیں ۔
۔ اور اب ایسا لگتا ہے کہ مختلف محاذوں پر ناکامی کے بعد امریکہ اپنے اصل ازلی اتحادیوں کے ساتھ چین کے سامنے کھل کر آچکا ہے کہ اب اس کا مقابلہ کیا جائے گا ۔ کہ کسی طرح مشرق کے غلبے کو روکا جائے ۔۔ اس وقت مغرب اور مشرق کی ٹکراؤ کی کیفیت اتنی شدید ہوچکی ہے کہ آپ دیکھیں ویکسین کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے ۔ کہ مغرب یعنی یورپ اور امریکہ میں چینی اور روسی ویکسین لگانے والوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔ جس نے وہاں آنا ہو pizferلگوائے یا پھر astrazenca ۔ یعنی اب اس ویکسین پر نیا ڈرامہ شروع ہوگیا ہے۔
مالی منافع اور کمپنیوں کے جھگڑے نے دنیا تقسیم کردی ہے۔۔ اس تمام معاملے کو تجارتی اور عالمی تھانیداری سے ہٹ کر بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ وہ جس کو کہتے نا clash of civilizations اس وقت دنیا واضح طور پر دوحصوں میں بٹی دیکھائی دے رہی ہے ۔ ابھی تک تو معاملہ زبانی کلامی اور اقدامات تک ہی محدود ہیں ۔ پر آگے چل کر یہ محسوس ہورہا ہے کہ ایک بہت بڑا war theatre تیار کیا جا رہا ہے ۔ اور کسی بھی جنگ سے پہلے جو صف بندیاں ہوتی ہیں وہ کی جا رہی ہیں ۔
۔ اگر آپکو یاد ہو امریکہ چین والے معاملے پر جو میں نے گزشتہ ویڈیو کی تھی اس میں بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ اس سال کے لیے امریکہ تاریخی بجٹ 6 ٹریلین ڈالرز کا رکھا ہے ۔ جس میں
1.5 ٹریلین ڈالر صرف پینٹاگون یعنی دفاع پر خرچ ہوگا ۔ جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ہے ۔ دراصل امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی اقدار غالب ہیں۔ اور دنیا پر ان کو ہی حکمرانی کاحق ہے ۔ کیونکہ یہ پاک صاف جمہوریت سے لبریز اور اعلی انسانی اقدار کی حامل ہیں ۔ جبکہ دوسری جانب دنیا کو چینی سرمایہ کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔ کہ جو سنکیانگ میں ہو رہا ہے جو تائیوان سے چین برتاؤ کر رہا ہے ۔ جس طرح چین نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا ہے ۔ جو چین میں جبری مشقت لی جاتی ہے ۔ اس لیے چین کا معاشی غلبہ کسی طور پر ناقابلِ قبول ہے کیونکہ یہ مساویانہ مقابلے سے روکتا ہے۔۔ سننے میں مغرب کا یہ پراپیگنڈہ بہت اچھا لگاتا ہے ۔ پر اگر دیکھا جائے جس کی جانب چین بھی اشارہ کرتا ہے ۔ کہ مغرب کا دوغلا پن جب کشمیر ہویا فلسطین یا شام یا لیبیا یا افغانستان یا عراق وہاں پر آکر عیاں ہوجاتا ہے ۔ اور دنیا میں گزشتہ صدی اور اس صدی میں جتنا بھی خون خرابہ اور جنگیں برپا کی گئی ہیں بلکہ تھوپی کئی گئی ہیں وہ سب مغرب کی پیدا کردہ ہیں ۔ اس لیے امریکہ یا جی سیون ممالک جو کہہ رہے ہیں وہ صرف چین کے مقابلے کی بات نہیں بلکہ دنیا کے سامنے ایک مثبت متبادل پیش کرنا ہے۔ اور دنیا کو یہ باور کروانے کی ایک ناکام سی کوشش دیکھائی دیتی ہے کہ مغرب ہے تو ایک بھڑیا مگر انصاف پسند بھڑیا ہے ۔ جو بھیڑ بکریوں کو مارتا ضرور ہے مگر کسی قانون کے تحت ۔ پھر چاہے وہ آئی ایم ایف ہو ورلڈ بینک ہو یا اقوام متحدہ یا پھر سیکورٹی کونسل ہو ۔ جس سے اجازت لو ، قرارداد پاس کرواو اور بغیر کسی ثبوت کے کسی بھی ملک پر weapons of mass destructionکا الزام لگا کر اس کو برباد کر دو ۔
۔ اور ساتھ ہی یہ بھی واضح نہیں کہ عالمی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مغرب کیسے رقم خرچ کرے گا ۔ کیونکہ جمہوریت میں کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی عوام کا دیا ہوا ٹیکس دوسرے مملکوں میں انفراسٹکچر پر خرچ کرے ۔ ابھی تک صرف یہ ہی بات واضح ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مقابلے کے لیے مغربی طاقتوں کے اندر ایک نیا عزم پیدا ہو گیا ہے۔ اور یہ تمام مغربی ممالک چین کا راستہ روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔