مزید دیکھیں

مقبول

مصطفیٰ کمال کی ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ڈاکٹر لو ڈپینگ سے ملاقات

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما و وفاقی...

آئی ایم ایف سے جائزہ مذاکرات ، پاکستان کی طرف سے تجاویز پیش

پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے...

کینیڈا کے کلب میں فائرنگ،11افراد شدید زخمی

ٹورنٹو:کینیڈا کےشہر ٹورنٹو میں رات ایک کلب میں فائرنگ...

چین میں زیرتعلیم پاکستانی اسٹوڈنٹس کا مستقبل ؟؟؟ بقلم:ڈاکٹر زاہد جٹ

بات ہے 2020 کے شروع کی میں جو کہ چائنا کی ایک میڈیکل یونیورسٹی میں طالب علم ہوں معمول کے مطابق چھٹیاں ہوئی تھی تو میں اپنے گھر ملنے کے لیے آیا تھا۔ میں پاکستان آیا تو بیس یا پچیس دن کے بعد خبریں آنا شروع ہوگئی کہ چائنہ میں بہت زیادہ کرونا وائرس پھیلتا جا رہا ہے۔ مجھے پاکستان کے کافی لوگ بھی پوچھتے تھے کہ اب ادھر کیسے حالات ہیں تو میں کہتا پھرتا تھا کہ حالات نارمل ہی ہیں اور کچھ دنوں تک ٹھیک ہو جائیں گے۔ ہم سب کو یہی تھا کہ حالات معمول کے مطابق ایک دو مہینے میں ٹھیک ہوجائیں گے اور ہم واپس چلے جائیں گے۔ حالات بدلتے گئے اور ہر ٹی وی چینل پہ آنا شروع ہو گیا کہ حالات بہت زیادہ خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

ہم اپنی یونیورسٹی کی مینجمنٹ کے ساتھ بھی رابطے میں تھے وہ ہمیں یہی کہہ رہے تھے آپ کا یہ والا سمسٹر آن لائن ہے اگلے سمسٹر سے آپ کو یونیورسٹی واپس بلا لیا جائے گا اور معمول کے مطابق آپ کی کلاسز شروع کروا دی جائیں گی۔

تو جناب کرتے کرواتے ایک سال یوں ہی گزر گیا۔ تو جب اگلا سال شروع ہونا تھا تو یونیورسٹی نے ہم سے فیس کا مطالبہ کیا تو ہم جو کہ پاکستان میں تھے اور کورونا وائرس کی وجہ سے سب کے معاشی حالات جو تھے وہ اتنے زیادہ اچھے نہیں تھے۔ تو ہم نے یونیورسٹی سے بولا کہ ہمیں فیس میں رعایت دی جائے اور جتنی جلدی ہو سکے ہمیں واپس بھی بلایا جائے۔ یونیورسٹی نے ہماری ایک نہ سنی اور ہم سے پوری کی پوری فیس چارج کی۔ خیر کرتے کرواتے وہ سال بھی گزر گیا یا اور ہم ابھی تک پاکستان میں ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔

اب مسئلہ یہ بنا ہوا ہے ہم سب کے لیے کہ ہم چوتھے سال میں یا پانچویں سال میں ہو چکے ہیں اور ہماری کلاسز آن لائن ہی چل رہی ہیں۔ اور ہم جب بھی اپنی یونیورسٹی سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں کب واپس بلایا جائے گا ؟ تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ اس کا فیصلہ ہماری حکومت کرے گی ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ صرف سٹوڈنٹ ویزے والے ہی ہیں جو ملک میں واپس نہیں جا سکتے ہیں۔ جتنے بھی لوگ وہاں پر کام کرتے ہیں ان کو جانے کی اجازت ہے۔ اب آپ ہی بتائیں ہم کیا کریں اور کدھر جائیں؟

ہم جتنے بھی اسٹوڈنٹس ہیں ہم نے سوشل میڈیا پر بھی بڑی کوشش کی ہے اور اپنا پوائنٹ سب کے سامنے رکھا ہے۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری کوئی بات نہیں سنی گئی۔ ہم بھی پاکستان کے شہری ہیں اور ہم تعلیم بے شک بیرون ملک حاصل کر رہے ہیں لیکن ہمارا دل پاکستان میں ہی ہے۔ اور ہم پاکستانی ہی ہیں۔ تو خدارا ہمارے فیوچر کے ساتھ نہ کھیلا جائے اور کوئی نہ کوئی بات کی جائے تاکہ چینی حکومت ہمیں جلد از جلد اپنے ملک میں واپس بلا لے۔

ہم میں سے کچھ دوست ایسے بھی ہیں جنہوں نے وزیروں اور مشیروں سے ملاقاتیں کیں اور ان کو سارا کا سارا قصہ بتایا۔ لیکن بڑے دکھ کی بات ہے اور نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے بھی اس معاملے میں ہماری کوئی بھی مدد نہیں کی اب تک۔

اور دوسری جانب جو پاکستان کے میڈیکل کا ادارہ ہے جس کو ہم پاکستان میڈیکل کمیشن کہتے ہیں۔ اس ادارے نے بھی کہہ دیا ہے کہ جو بچے آن لائن ڈگری حاصل کر رہے ہیں ہم ان کو پاکستان میں پریکٹس کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ یہ تو ہمارے ساتھ ظلم ہے۔ ہمارے پاس الفاظ بھی نہیں ہیں کہ اپنے دکھ اور کیفیت کو کیسے بیان کریں۔ ہمارے والدین بھی بہت زیادہ صدمے سے دوچار ہو رہے ہیں انہی حالات کی وجہ سے۔اب آپ ہی بتائیں کہ ہم جائیں تو جائیں کہاں ؟ کیا ہمارے جینے کی بھی وجہ بچتی ہے ؟ ہمارے والدین جو کہ بہت زیادہ خواب سجائے بیٹھے تھے ان سب کی آنکھیں بہت افسردہ نظر آتی ہیں۔

انہی حالات کی وجہ سے ہم ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ ہمارا نہ صرف پیسے کا نقصان ہوتا جا رہا ہے بلکہ وقت کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور سب سے زیادہ دکھ کی بات تو یہی ہے کہ ہمیں اپنا مستقبل بھی نظر نہیں آ رہا کہ کس طرف جائے گا۔ حالانکہ پاکستان میڈیکل کمیشن کو سوچنا تو یہ چاہیے کہ کرونا کے دوران ساری دنیا کے حالات اس طرح کے تھے کہ سٹوڈنٹس نے آن لائن کلاسز لیں ہیں۔ اگر پاکستان میڈیکل کمیشن ہمارا اتنا خیر خواہ ہے تو ہمیں پاکستان کے جو ٹیچنگ ہوسپٹلز ہیں ان میں روٹیشنز کی آفیشلی اجازت دے۔ یا پھر ہماری حکومت ایسے کرے کہ ہمیں کسی بھی طرح چین میں واپس بھیجے تاکہ ہم ادھر جا کے اپنی تعلیم باقاعدگی سے حاصل کر سکیں۔

اور ہماری پاکستانی حکومت سے اور پاکستان میڈیکل کمیشن سے یہی گزارش ہے کہ جو بچے کرونا وائرس کی وجہ سے اپنے آخری سال آن لائن لے چکے ہیں ان کی ڈگری کو تسلیم کیا جائے اور ان کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنے روشن مستقبل کی طرف گامزن ہوسکیں۔