چینی سائنسدانوں کا خلاء میں چاول اگانے کا کامیاب تجربہ

برف کے پودوں کو پہلی بار ایک تجربے میں خلا میں بیجوں سے کاشت کیا گیا ہے تجربے کے مستقبل کے طویل مدتی مشنز پر اہم اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

باغی ٹی وی: چینی خلاء نوردوں جن کو ٹائیکونوٹس کے نام سے جانا جاتا ہے، نے یہ تجربہ وینٹیئن اسپیس لیبارٹری پر کیا اس لیبارٹری کو 24 جولائی کو لانچ کیا گیا تھا جو ابھی ٹیانگونگ اسپیس اسٹیشن کے مرکزی موڈیول سے جُڑی ہے۔

نظامِ شمسی سے باہر موجود سیارے میں زندگی کے آثار دریافت

ایسا پہلی بارہوا ہے کہ سائنس دانوں نے چاول کے اگنے کا مکمل عمل، یعنی بیج سے ایک ایسا پودا بننا جو خود بیج پیدا کر سکے، عدم کششِ ثقل کے ماحول میں کرنے کی کوشش کی ہے۔

ٹائیکوناٹس یعنی چینی خلانورد خلا میں عربائیڈوپسِس تھالیانا نامی ایک پودےکا بھی تجربہ کررہےہیں یہ پودا سرسوں کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور اکثرموسمیاتی تغیرات کے مطالعے کے استعمال کیا جاتا ہے۔

چائینیز اکیڈمی آف سائنسز کے سنٹر فار ایکسی لینس ان مالیکیولر پلانٹ سائنسز کے ایک محقق پروفیسر ہوئی قیونگ ژینگ کا کہنا تھا کہ چاولوں کی اچھی نمو ہو رہی ہے۔

سرخ سیارے پر پانی کے ممکنہ ذخائر کا تفصیلی نقشہ تیار

انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں کہ مالیکیولر سطح پر مائیکرو گریویٹی کس طرح پودے کے پھول دینے کے وقت کو متاثر کر سکتی ہے اور آیامتعلقہ عمل کو قابو کرنے کے لیے مائیکرو گریویٹی ماحول کااستعمال ممکن ہے۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر سب سے مقبول غذاؤں میں سے ایک غذا چاول ہے اور اپولو مشنز کے بعد سے یہ خلاء بازوں کے لیے مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔

ناسا کے خلاء باز نیل آرمسٹرونگ، مائیکل کولنس اور بز آلڈرِن اپولو 11 مشن کے دوران خشک جمی ہوئی چکن اور چاول کی غذا کھاتے تھے۔

تب سے، خلابازوں نے زمین پر اگائی اور کاشت کی جانے والی خوراک پر انحصار کیا ہے، تاہم مریخ اور اس سے آگے طویل مشنوں کی امیدیں خلا میں پودوں اور فصلوں کو اگانے کی صلاحیت پر منحصر ہو سکتی ہیں۔

پروفیسرژینگ نے کہا کہ اگر ہم مریخ پر جانا اور دریافت کرنا چاہتے ہیں، تو زمین سے خوراک لانا خلابازوں کے طویل سفر اور خلا میں مشن کے لیے کافی نہیں ہے ہمیں طویل مدتی خلائی تحقیق کے لیے ایک پائیدار خوراک کا ذریعہ تلاش کرنا ہوگا-

ماہرین فلکیات نے نیپچون جیسا سیارہ دریافت کر لیا

Comments are closed.