دور سے اگر آپ زرافہ کو دیکھیں گے تو آپ کو یہ جانور عجیب ہی لگے گا. چھ فٹ لمبی اگلی ٹانگوں کے پیچھے دونوں ٹانگیں چھوٹی ہیں. اوپر سے گردن مینار پاکستان بنی ہوتی ہے. لیکن اتنی لمبی گردن نہیں کہ زمین کو چھو لے. اس لئے جب زرافہ پانی پیتا ہے تو بے ہنگم انداز میں دونوں ٹانگیں باہر کی طرف پھیلا کر گردن پہلے نیچے لاتا ہے.
آپ سوچیں گے یہ صبح صبح لالہ کو زرافہ کیوں یاد آگیا.؟ تو وجہ یہ ہے کہ اکثر لوگ بھی زرافہ کی طرح ہی ہوتے ہیں. یہ دوسروں کو جب دیکھتے ہیں تو خود پہاڑ پر بیٹھ جاتے ہوں. کیونکہ دوسروں کو ان کے مسائل کے حل پھر ایسے بتا رہے ہوں گے جیسے پہاڑ پر بیٹھا شخص نیچے والے کو ہدایات دے رہا ہو.
لیکن یہی شخص اپنے مسائل کو پھر ایسا دیکھتا ہے جیسے وہ مسائل نہ ہوں بلکہ کوہ ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ ہو جسے پار کرنا ہے. یہ آپ کو اور خود کو یہ یقین دلائیں گے کہ انکا قد چھوٹا نہیں بلکہ ان کے چیلنج ہی اتنے عظیم ہیں جو یہ ان کو حل نہیں کر پائے.
آپ کو یقین نہیں تو کسی بھی محفل میں اپنے کچھ مسائل بیان کر کے دیکھیں. سب آپ کو ایسے حل بتائیں گے کہ جیسے ایک چھٹکی بھر مسئلہ ہی تو ہے. ایسے عظیم لوگوں سے بھرا یہ ملک یہ معاشرہ پھر اتنے مسائل کا شکار کیوں ہے.؟ اسکا جواب یہ ہے کہ ہم سب زرافے ہیں. ہمیں دور کی چیزیں تو نظر آتی ہیں لیکن اپنے قدموں کی گھاس نہیں چر سکتے. ہم سارا دن اپنے ملک ہی کیا دنیا بھر کے بڑے بڑے مسائل کا حل بتاتے ہیں لیکن اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل حل نہیں کرسکتے.
زرافہ کی گردن اگر نیچے نہیں آسکتی تو اسے قدرت نے ایسا بنایا ہے. لیکن ہمارے چراغ تلے جو اندھیرا ہے یہ ہم نے خود تخلیق کیا ہوا ہوتا ہے. دکھاوے کے پہاڑوں سے نیچے اتر کر اگر اپنی زندگی اپنے مسائل کیلئے ہم وقت نکالیں. ان پر بات کریں انکا سامنا کریں یہ پھر پہاڑ جیسے نہیں لگتے.