ضلع اپراور لوئرچترال میں دو خواتین کی خودکشی

چترال،باغی ٹی وی(نامہ نگارگل حماد فاروقی ) چترال کے دونوں اضلاع میں دو خواتین نے خودکشی کرتے ہوے زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ پہلا واقعہ لوئر چترال کے علاقے بیلپھوک میں پیش آیا جہاں 19 سالہ نوشین رحمت سکنہ بیل پھوک نے اپنے ہی گھر میں گلے میں پھندا ڈال کر چھت کے پنکھے کے ساتھ خود کو لٹکا کر خودکشی کرلی۔چترال پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ نوشین رحمت نے آغا خان یونیورسٹی کراچی میں بی ایس نرسنگ میں داخلہ لینے کیلیے ٹیسٹ دیا تھا جس میں وہ فیل ہوگئی اور بی ایس سی نرسنگ میں داخلہ نہ ملنے پر اس نے خودکشی کرلی۔ چترال میں اکثر طالبات امتحان میں کم نمبر لینے یا اگلی کلاس میں داخلہ نہ ملنے پر خودکشیاں کرتی رہتی ہیں مگر تاحال حکومتی سطح پر اس کی تحقیق او روک تھام کیلئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

دوسرا واقعہ ضلع اپر چترال تحصیل تورکھو کے علاقے زانگ لشٹ میں پیش آیا۔25 سالہ حلیمہ بی بی جو ایک شادی شدہ خاتون تھِی اپنے ہی گھر میں حالت میں مردہ پائی گئی کہ اس نےگلے میں رسہ ڈالنے کے بعد خود کو چھت سے لٹکاتے ہوئے خودکشی کی تھی۔

سب ڈویژنل پولیس افیسر تورکہو بہادر خان نے میڈیا کو بتایا کہ خودکشی کرنے والی خاتون دو بچوں کی ماں تھی۔ ایس ڈی پی او بہادر خان نے بتایا کہ فی الوقت خودکشی کرنے کی وجوہات معلوم نہ ہوسکی کہ اس خاتون نے کیوں خودکشی کرلی۔ پولیس کے مطابق اس خاتون کا شوہر فدا علی شاہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھا جب اس خاتون نے خودکشی کرلی۔پولیس نے خاتون کی لاش کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال پوسٹ مارٹم کرنے کیلیے منتقل کیا۔

واضح رہے کہ چترال میں خودکشی کا رحجان دیگر اضلاع کے نسبت زیادہ ہے اور نوجوان خواتین اور لڑکیوں میں اس کی شرح زیادہ ہے جس پر تخقیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان نوجوان خواتین میں خودکشی کرنے کا رحجان کیوں زیادہ ہے۔ اور یہ معلوم کیا جائے کہ ان خواتین اور لڑکیوں کی طبی لحاظ سے تحقیقات ہونی چاہئے کہ ان میں کیا کمی ہے جو ان میں قوت برداشت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس سلسلے میں حکومتی اور غیر سرکاری اداروں کی سطح پر بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

چترال ٹوڈے کے ایک رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں ایک سوشیالوجیکل سروے کا اہتمام بھِی کیا گیا جس میں نور ثناء الدین استاد، پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر عمران سجاد، اور جہانزیب کالج سوات کے ظفر احمد نے حصہ لیا۔ اس سروے کے مطابق چترال میں سال دو ہزار تیرہ سے دو ہزار انیس تک ایک سو چھیتر لوگوں نے خودکشی کی ہیں اور ان میں اٹھاون فی صد خواتین تھی جن کی تعداد ایک سو دو بنتی ہے۔
چترال کے دونوں اضلاع میں ابھی کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ہسپتال اور کلینک میں کوئی دماغی ڈاکٹر یعنی سائیکاٹریسٹ نہیں ہے۔ ایک نجی ادارے جو صحت پر کام کرتا ہے انہوں نے چند سال قبل ایک خاتون ماہر نفسیات کو تعینات کیا تھا مگر بدقسمتی سے اس خاتون معالج کو اپنے ہی ایک دماغی مریض نے قتل کرکے خود بھی خودکشی کرلی تھی۔

.

Leave a reply