چولستانی گوپے میں چھپی روہی کی دلکش ثقافت
تحریر: ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
تیسری قسط کا خلاصہ:
تیسری قسط میں چولستان کے ماحولیاتی چیلنجز جیسے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کی بے قاعدگی اور زمین کی زرخیزی میں کمی کو بیان کیا گیا ہے۔اس قسط میں چولستانی خواتین کے مسائل اور ان کے حقوق کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔خاص طور پر صحت،تعلیم اور روزگار کے حوالے سے روہی چولستان کے نوجوانوں کی مشکلات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔شہروں کی طرف روزگار کے حصول کے لیے ہجرت کرنے،ذریعہ معاش کے مواقع کی کمی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔گوپے میں چھپی چولستانی ثقافت اور اس کے ورثے کی اہمیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حکومتی اور غیر سرکاری اداروں کی بروقت پلاننگ اور پروجیکٹس سے چولستان کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ مقامی لوگوں کی زندگی کو بہتر اور خوشحال بنایا جا سکے۔
تیسری و آخری قسط
چولستان کی ثقافت اور ترقی کے امکانات
چولستان کی ثقافت اور ترقی کے امکانات پر نظر ڈالیں تو یہ خطہ اپنے اندر بے شمار تہذیبی، لسانی اور ادبی خزانے سموئے ہوئے ہے۔ یہاں کی مادری زبانوں کا لٹریچر، صوفی ازم، امن و رواداری کا پیغام اور آثار قدیمہ کے نایاب نمونے، سبھی چولستان کے منفرد تشخص کو اجاگر کرتے ہیں۔
چولستان کی ریتلی زمین میں تخلیقی کہانیاں اور نظمیں پروان چڑھتی ہیں، جن کی بنیادیں علم، ادب، دانش اور خوشحالی کے گہرے اصولوں پر استوار ہیں۔ سرائیکی خطہ جو سات دریاؤں کی سرزمین ملتان کا حصہ ہے، ہمیشہ سے شاعری، صوفیانہ خیالات اور ثقافتی رنگوں کا گہوارہ رہا ہے۔
اسلم جاوید چودھری جیسے سرائیکی وسیب کے شاعر، جو اپنی نظم "میکوں آکھ نہ پنج دریائی” کے ذریعے سرائیکی ثقافت اور عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں، اس خطے کے ادبی سرمایہ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا کلام عام فہم ہونے کے باوجود گہری معنویت لیے ہوتا ہے، جو ہر طبقے کو متاثر کرتا ہے۔
پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چولستانی گوپے میں چھپی روہی کی دلکش ثقافت
دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چولستانی گوپے میں چھپی روہی کی دلکش ثقافت
چولستان کی ثقافتی اہمیت کو سمجھتے ہوئے، اس خطے میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ سیاحت، آثار قدیمہ، اور مقامی آرٹ و دستکاری کو فروغ دے کر نہ صرف یہاں کے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس علاقے کی شناخت کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
میں تسا،میڈی دھرتی تسی
تسی روہی جائی
میکوں آکھ نہ پنج دریائی
ان کے فلسفۂ شاعری کی رفعت اور نقطۂ عروج کا خلاصہ دراصل سرائیکی وسیب کی علیحدہ شناخت، نئے صوبے کی منزلِ مقصود کا سچا خواب، خود مختاری، خود اعتمادی، تعمیرِ نو اور ثقافتی ورثے کا حسین امتزاج ہے۔ روہی، چولستان، راوا، تھل، دمان اور کوہِ سلیمان کی جاذب بےبسی اور امید کا خوبصورت اظہار ایسے ہے جیسے دریا کو کوزے میں بند کیا گیا ہو۔
روہی کے باسی اپنی گائیں، بھیڑ بکریوں اور اونٹوں سے عشق کرتے ہیں۔ ان کے خالص دودھ اور مکھن سے دیسی گھی تیار کیا جاتا ہے۔ تاہم، چولستان میں پانی کی عدم دستیابی اور خوراک کی قلت ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ مال مویشی پال کر روزی کماتے ہیں، لیکن چارے کی کمی اور بیماریوں کے خطرات ان کی آمدنی کو محدود کر دیتے ہیں۔ جانوروں کی افزائش اور صحت کے مسائل کے حل کے لیے جدید ویٹرنری خدمات اور چارے کی دستیابی میں اضافہ ضروری ہے۔
تعلیم کے فقدان نے بھی چولستان کے لوگوں کو ترقی سے محروم رکھا ہوا ہے۔ علاقے میں تعلیمی اداروں کی کمی، موجودہ اسکولوں کی خستہ حالی اور عوام میں تعلیم کے حوالے سے شعور کی کمی نے بچوں کو تعلیمی مواقع سے محروم کر دیا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے مسائل اور معاشرتی رکاوٹیں زیادہ سنگین ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو مل کر تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانا ہوگا۔
صحت کی سہولیات کی کمی بھی چولستان کے باسیوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہسپتالوں اور طبی مراکز کی غیر موجودگی، صحت کی بنیادی خدمات کا فقدان اور طبی عملے کی کمی نے لوگوں کو معمولی بیماریوں کے علاج کے لیے بھی طویل فاصلے طے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ نتیجتاً، کئی لوگ بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
روہی کے لوگ اپنی روحانی تجلیات کے منبع کو حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری علیہ الرحمہ (اوچ شریف) سے منسوب کرتے ہیں اور چنن پیر رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ پر اپنی اولاد کی سلامتی کے لیے اللہ پاک سے دعائیں مانگتے ہیں۔
روہی کی مشکلات کو حسین پیرائے میں کمال خوبصورت اشعار کی شکل میں شاعر نے نفیس لفظوں کا کمال حیرت انگیز رنگ اس طرح دیا ہے۔شاعری لطیف جذبوں کا خوبصورت اظہار اور قصہ ہے۔کیا کمال کاری گری سے قدیم تہذیب وتمدن وادی ھاکڑہ سرسوتی کی کہانی اور پیار کا گیت ہے۔
شاہد عالم شاہد کی شاعری کا حسن ملاحظہ فرمائیں۔
ریشم ریشم ہوٹھیں اتے رہ گئے اصلوں جندرے
اکھیں نال کریندا رہ گئے یار کمال دے قصے
کیا شہزادیاں کیا پریاں کیا دیہہ کیا محل منارے
بکھے بالیں کوں تاں بھاندن روٹی دال دے قصے
کونجاں روہی لنگھ ویندیاں ہن راتیں کوں
بٹا کھو وی فجریں تونڑیں واہندا ہا
روزگار کے محدود مواقع چولستان کے نوجوانوں کو بڑے شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور کر رہے ہیں۔مقامی سطح پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کے سبب بہت سے لوگ محنت مزدوری کے لیے شہروں میں جا کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، جس سے ان کے خاندان مزید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہنر سکھانے والے مراکز اور زرعی منصوبے چولستان میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔
صحرائی ماحول میں خواتین کو بھی بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔گوپوں میں رہنے والی خواتین پانی لانے،کھانے کی تیاری اور گھر کے دیگر کاموں میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ صرف کرتی ہیں۔ان خواتین کو صحت،تعلیم اور روزگار کے بروقت مواقع فراہم کرنا حکومت وقت فوری ذمہ داری ہے۔تاکہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔ماحولیاتی مسائل بھی چولستان کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کی بے قاعدگی اور صحرائی علاقوں میں پھیلتی ہوئی خشکی نے یہاں کی زمین کو مزید بنجر اور غیر زرخیز بنا دیا ہے۔جنگلات کی کٹائی اور مویشیوں کی تعداد میں اضافے نے ان مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے درخت لگانے اور پانی ذخیرہ کرنے کے جدید طریقوں کو اپنانا ہوگا۔
ثقافتی لحاظ سے چولستان کے باسی منفرد روایات اور طرز زندگی رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی ثقافت بھی ان مشکلات سے متاثر ہو رہی ہے۔ مٹی کے گوپے،جو ان کی رہائش کا مرکز ہیں۔سخت گرمی اور سردی کے موسم میں رہنے کے لیے ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔ان کے رہائشی مسائل کو حل کرنے کے لیے جدید لیکن ثقافت کے مطابق مکانات فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
چولستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومتی اقدامات، غیر سرکاری تنظیموں کی شمولیت، اور مقامی لوگوں کی شراکت داری ضروری ہے۔پانی کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے، تعلیم اور صحت کے مراکز قائم کرنے،اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔صرف ان اقدامات سے ہی چولستان کے باسیوں کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔
حسین و جمیل روہی کے سرائیکی گوپے کے ثقافتی اور تہذیبی ورثے کے حقیقی قصے نئی اور پر امید نسل تک پہنچانے میں چولستان کے قصہ گو، فنکار، اور شعراء اہم کردار ادا کر رہے ہیں، تاکہ نوجوان طبقہ اپنے محفوظ ورثے کی منفرد شناخت پر فخر کر سکے۔ ہمیں تو پرامن چولستان کا ہر موسم بہار جیسا محسوس ہوتا ہے، جہاں باغوں میں ہر قسم کے چرند پرند اپنی دھن میں گاتے ہیں۔ کونج کا دلکش نغمہ سرائیکی خطے کے ریت کے ٹیلوں کی دلنشینی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
کونجاں وانگوں ول ول اساں ریت اتوں پئے بھوندے
شاہد کل سرمایہ ساڈا ہن صحرا دے موسم
تاہم، روہی اور چولستان کے باسیوں کے خوابوں کی تکمیل اور انہیں ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے ساتھ ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ یہ خوبصورت گوپے ہمیشہ آباد رہیں۔ ان میں خوشیوں کے گیت گائے جائیں اورچولستان ، روہی کی سرزمین ہمیشہ خوشحال اور پررونق رہے۔