مجھے بچپن سے ہی سگریٹ کی خوشبو اچھی نہیں لگتی تھی عجیب سی دم گھٹتی سی سانس روکتی ہوئی سی ۔ناخوشگوار سی۔۔پھر جوں جوں بڑی ہوتی گی اس کے بارے میں جاننا شروع کیا تو خوفناک انکشاف ہوتا گیا کہ کس قدر یہ جان لیوا نشہ ہے جو انسان کو سلو سلو انداز سے اندر سے کاٹنا نوچنا شروع کردیتا ہے اور سگریٹ نوشی کرنے والا وقتی سکون حاصل کرنے کے لیے یہ جان ہی نہیں پاتا کہ وہ کتنے گھاٹے کا سودا کررہا ہوتا ہے یہ زہر نہ صرف خود اپنے اندر اتار رہا ہوتا ہے بلکہ انجانے میں اپنی نسلوں کو بھی اس تباہی میں شامل کرلیتا اپنی نسلوں میں بھی یہ زیر بانٹ رہا ہوتا ہے سگریٹ نوشی کرنے والا سمجھتا ہے بس وہ خود سگریٹ پیتا ہے تو باقی گھر والے اس نقصان سے بچے ہوئے ہیں تو وہ بچے ہوئے نہیں ہوتے چھوٹے بچوں سے لیکر اس کی بیوی بہین بھائی ۔ والدین اس دھویں سے متاثر ہورہے ہوتے ہیں اتنا ہی ان کے پھیپھڑوں پر اثر پڑرہا ہوتا ہے جتنا سگریٹ نوشی کرنے والے کے پھیپھڑوں پر۔۔یہ نشے کی پہلی سیڑھی ہے یہاں سے ہی انسان کی تبائی کی بنیاد پڑتی ہے سگریٹ کا عادی انسان اس نشے کا اتنا عادی ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ اس سے پھر اور کوئی بھاری نشے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے لا شعوری میں کہ نسوار گھٹکا سے ہوتا ہوا ایک دن خدانخواستہ ہیروئن تک بھی رسائی حاصل کرلیتا ہے اسے لگتا ہے یہ بھی سگریٹ کی طرح سکون دے گی لیکن پھر انسان کی واپسی کے سب راستے بند ہوجاتے ہیں انسان اپنی تباہی کو خود انتظام کرتا ہے تو ایسے لوگوں کی منزل پھر اندھیرے راستوں اور موت کی وادی کے سوا کوئی منزل نہیں رہتی میں نے نشے کے لیے تڑپتے ہوئے لوگوں کو دیکھا گھر باربیچتے ہوئے دیکھا زلیل رسوا ہوتے دیکھا نہ صرف اس نشئی کو بلکہ اس کی فیملی کو نا حق زلیل ہوتے دیکھا صرف ایک انسان کے نشے کی لت سے پورا خاندان اجڑ جاتا ہے میں سوچتی ہوں گورنمنٹ اس زہر سے اپنی عوام کو کیوں نہیں بچا رہی کیوں ایسے سخت اقدامات نہیں کررہی کہ اس زیر سے ہم کم سے کم اپنی آنے والی نسلوں کو بچا سکیں ۔۔
سگریٹ نوشی کرنے والا انسان اپنے پیسے کو اپنی صحت کو اس نشے میں جھونک رہا ہوتا ہے ایک سگریٹ پینے والا بندہ صرف اتنا حساب لگا لے ایک سال میں اس نے کتنے لاکھ روپے اس سگریٹ میں جھونک دیے اور بدلے میں کیا حاصل کیا اپنے پھیپڑے ختم کروا دیے جس کے بنا انسان سانس بھی نہیں لے سکتا اور آخر ایک دن اس کی ذندگی ختم ہوجاتی ہے اس نشے سے ۔۔
بقول شاعر کے ۔۔زندگی کے رستے کیسے ہیں یہاں .ہر جوان رُوح کو گھُن لگا ہوا ہے اور کچھ لوگ اپنی وقتی ٹینشن کو دور کرنے کے لیے سگریٹ کا سہارا لےکر ایک ہی نشست میں آدھی ڈبی سگریٹ نوش کرجاتے ہیں یہ جانے بنا کہ یہ سگریٹ اپ کی ٹینشن دور نہیں کررہے بلکہ آپکو تباہی کے دہانے پر کھڑا کرنے جارہے ہوتے ہیں آپ کو اندر سے کھوکھلا کررہے ہیں اور یہ سگریٹ نوش انسان کی خود غرضی ہی تو ہے کہ اپنے پیاروں کو ازلی جدائی کا دکھ دے جاتے ہیں موت کو گلے لگاجاتے ہیں۔۔!!
صرف پاکستان کی گورنمنٹ ہی نہیں بلکہ یورپین ممالک بھی سگریٹ کی ڈبی پر سگریٹ نوشی کےخوفناک انجام کی پیکچر لگا کر بس اپنا فرض پورا کردیتے ہیں عوام کو یہ آگاہی نہیں دیتے کہ معاشرے میں یہ کینسر پھیل رہا ہے لوگ اس سے نفسیاتی اور ذہنی طور پر بھی متاثر ہورہے ہیں اس کی روک تھام کے لیے آج تک کوئی مہم نہیں چلائی گی کہ لوگوں کو اس کے نقصانات کی آگاہی ہو پہلی دفعہ باغی ٹی وی اور جناب ممتاز صاحب اور ان کے دیگر ساتھیوں نےاس پر آواز اٹھائی ہے اب ہر پاکستانی کو چاہئیےان کی آواز میں شامل ہوکر ان کی آواز کو اور مضبوط بنانا ہوگا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسل اس زہر سے بچ سکے۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان کو چاہئیے کھانے پینے کی عام چیزیں سستی کردیں اور اس کے بدلے میں سگریٹ اتنے مہنگے کر دے کہ عام آدمی کی پہنچ سے ایسے ہی دور ہوجائیں جیسے نون لیگ کی حکومت میں غریب مظلوم کو انصاف ملنا مشکل بلکہ ناممکن تھا ۔۔
اللہ باغی ٹی وی اور اس کے عملے کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے جو پاکستان میں اپنا مثبت کردار ادا کررہے ہیں حق سچ کی آواز مبشر لقمان ۔جناب ممتاز حیدر صاحب اور ان کا تمام سٹاف ۔۔۔

Shares: