سگریٹ نوشی سے انکار ،زندگی سے پیار تحریر: فضیلت اجالہ

سگریٹ نوشی ،وہ سستہ نشہ ہے جو خاموش قاتل کا کام کرتا ہے،سگریٹ کے دھویں میں موجود تقریبا 4000 زہریلے کیمیائ مادے نا صرف سگرین نوش کیلیے سلو پوائزن کا کام کرتے ہیں بلکہ اسکے ارد گرد رہنے والے اسکے پیاروں کی صحت کی تباہی کا باعث بھی بنتیے ہیں،سگریٹ نوشی کے باعث 60 لاکھ سالانہ اموات میں سے چھ لاکھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو خود سگریٹ نہی پیتے لیکن ایسے لوگو کہ ساتھ رہتے یا اٹھتے بیٹھتے ہیں جو سگریٹ نوشی کے عادی ہیں
نوجوان نسل کسی بھی قوم کیلیے قیمتی اثاثے کی حیثت رکھتی ہے ،اور آج کے نوجوان کا سب سے بڑا المیہ سگریٹ یا تمباکو نوشی ہے جس نے نظام زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے
ہماری بدقسمتی کہے یا ہماری غفلت کا نتیجہ کہ ہماری نوجوان نسل میں سگریٹ نوشی کا رحجان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ دو کروڑ نوے لاکھ پاکستانی دن رات اس زہر کو اپنی رگوں میں اتارنے میں مصروف ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سگریٹ نوشوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے جن میں ناصرف مرد بلکہ عورتیں بھی شامل ہیں
یہ وہ زہر ہے جو ہماری نسل نوجواں کی رگوں میں سرائیت کر کے بہت سے والدین کو انکی سگریٹ نوشی میں مبتلا اولاد کے مستقبل اور بچاؤں سے ناامید کرچکا ہے ۔
سگریٹ نوشی میں مبتلا ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی جن میں سے سر فہرست ڈپریشن ہے ،بعض اوقات والدین کی زرا سی غفلت اور تربیت میں لاپرواہی کی وجہ سے بھی بچے سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
نا صرف نوجوان بلکہ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں چھوٹے بچے بھی ہاتھ میں سگریٹ پکڑےنظر آئیں گے ،اسکی بنیادی وجہ بے احتیاطی ،لاپرواہی اور اپنے فرائض سے کوتاہی ہے
جب ایک باپ اپنے بیٹے سے سگریٹ منگواتا اور اسکے سامنے ہی سگریٹ نوشی کرتا ہے تو وہ یہ کیسے سوچ لیتا ہے کہ اسکا بیٹا ایسا نہیں کرے گا، پہلی زمانے میں ایک عام تاثر تھا کہ سگریٹ ،پان،تمباکووغیرہ کا استعمال صرف جاہل اور ان پڑھ لوگ کرتے ہیں لیکن اکیسویں صدی نے اس کو غلط قرار دے دیا ہے جہاں استاد جیسی عظیم شخصیت جسے روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا ہے نا صرف طلبہ و طالبات کی موجودگی میں سگریٹ نوشی کرتا ہے بلکہ ایسے گھناؤنے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جہاں استاد طالب علموں کو نشہ آور چیزیں مہیاں کرنے میں ملوث پایا گیا ۔
شروع شروع میں نوجوان صرف شوق میں یا تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اور بعض اوقات مختلف پریشانیوں سے بھاگ کر سکون کی تلاش میں سگریٹ کی طرف پہلا قدم بڑھاتے ہیں جو بہت جلد ضرورت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے ،سگریٹ کا دھواں انسانی صحت کیلیے انتہائ خطرناک ہے ،اس میں موجوف نکوٹین مختلف اقسام کے کینسر کا سبب بنتا ہے- بکثرت تمباکو نوشی سے
دل اور خون کی رگوں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے جو گردوں میں خون کے بہاؤ میں کمی کا باعث بنتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ گردوں کو مکمل تباہ کردیتا ہے تمباکونوشی سے کورونا وائرس کا شکار ہونے کا امکان 14 فیصد بڑھ جا تا ہے۔اس کے علاوہ دماغ کا کینسر ،منہ کا کینسر ،پھیپھڑوں کا کینسر اور ٹی بی جیسے مہلک امراض بھی سگریٹ نوشی کا تحفہ ہیں
ملک پاکستان جہاں روٹی 12 روپے کی اور سگریٹ دو روپے کا ملتا ہو ،جہاں آدھی سے زیادہ عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرتی ہے وہاں سالانہ 100 ارب سے زیادہ سگریٹ نوشی کی مد میں خرچ ہوجانا ناصرف باعث افسوس بلکہ قومی المیہ اور مقام فکر ہے ،اگر ہمیں اپنا مستقبل محفوظ بنانا ہے ،ملک پاکستان کو ترقی کی شاہراؤں پہ گامزن دیکھنا ہے تو ہمیں اپنے آج کو یعنی اپنے بچوں کو اس موزی لعنت سے دور رکھنا ہوگا ،روزانہ کی بنیاد پہ سگریٹ نوشی کا شکار ہونے والے 1200 بچوں کو موت کی طرف قدم بڑھانے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کیجیے ،ناصرف خود سگریٹ نوشی ترک کیجیے بلکہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو بھی اس لت سے چھٹکارا پانے میں مدد فراہم کیجیے ،خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر یا ایسا مواد شئیر کرنے سے گریز کریں جس سے سگرٹ نوشی کی لت کو تقویت ملے
زندگی کو محفوظ بنائیں،اور تمباکونوشی سے خود کو اور دوسروں کو بھی بچائیں،اس کیلیے حکومت اور عوام کو مل کر اقدام کرنے ہونگے ،میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ سگریٹ کی قیمتوں اور ٹیکس میں اضافہ کیا جائے ،عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پت سخت پابندی اور جرمانہ مقرر کیا جائے ،سکول کالجز کے نزدیک ،گردونوح میں موجود تمام دکانوں پر سگریٹ کی فروخت ممنوع قرار دی جائے ،
” ہماری نوجوان ہمارا قیمتی سرمایا ہمارا آنے والا کل ہیں ،اور اس کل کو تابناک بنانے کیلیے ہمیں اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو سگریٹ نوشی اور منشیات کے زہر سے بچانا ہے جو کہ مار پیٹ یا زور و زبردستی سے نہی بلکہ پیار اور سمجھداری سےممکن ہے “نوجوانو،بچوں،بوڑھوں سب کو سگریٹ نوشی کے تباہ کن اثرات سے آگاہ کریں اور انہیں صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے پہ مائل کریں
اپنے لئے نہیں تو اپنے پیاروں کے لئے جیئے،،

Comments are closed.